نیلی سبز الجی کے پیوند سے زخم تیزی سے بھرنے لگے
بیجنگ: اگر زخم بھرنے والی پٹیوں اور پھائے پر سبز نیلی الجی کو شامل کرلیا جائے تو اس طرح دیرینہ زخم تیزیسے مندمل ہوسکتے ہیں۔
اس ضمن میں جلد پر لگانے کا ایک پیوند یا پٹی کا پھایہ بنایا گیا ہے جس پرسبز اور نیلی الجی کو زندہ رکھا گیا تھا اور جب چوہوں پر اسے آزمایا گیا تو اس کے دیرینہ زخم اور جلد ٹھیک نہ ہونے والے ناسور بہت جلدی ٹھیک ہوگئے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو ٹھیک کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
بعض افراد کے زخم لاکھ کوشش کے باوجود ٹھیک نہیں ہوپاتے جس کی وجہ ذیابیطس، خون کی متاثرہ روانی یا دیگر عوامل ہوسکتے ہیں۔ اس طرح زخم پر لگے کٹ اور جلنے کے بعد بھی وہ صحتیاب نہیں ہوپاتے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ متاثرہ حصے یا ہاتھ ، پیر یا انگلی کو کاٹنا بھی پڑتا ہے۔
ذیابیطس کے مریض کے زخموں کو بسااوقات آکسیجن گیس سے بھی ٹھیک کیا جاتا ہے کیونکہ یہ گیس جلد کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تاہم اس کی اپنی حدود ہیں کیونکہ گیس کا بہت ہی کم حصہ اندر تک پہنچ پاتا ہے۔
اب جلد کے اندر آکسیجن پہنچانے کے لیے چین کی نینجنگ یونیورسٹی نے قدرت سے ایک سبق سیکھا ہے جس میں انہوں نے زخم کی بنائی جانے والی پٹی میں ایک طرح کا بیکٹیریا Synechococcus elongatesرکھا جس کی اکثریت زندہ تھی۔ یہ بیکٹیریا عام طور پر نیلی سبز الجی بھی کہلاتا ہے جو دھوپ کی موجودگی میں قدرتی طور پر آکسیجن خارج کرتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ آکسیجن ضیائی تالیف (فوٹوسنتھے سز) کی صورت پیدا ہوتی ہے۔
اس پیوند میں ہائیڈروجل کے موتی رکھے گئے ہیں جو بیکٹیریا کے آکسیجن کو جذب کرکے جلد کی گہرائی تک لے جاتے ہیں۔ یہ آکسیجن پسینے کے پوروں اور مساموں میں نفوذ کرجاتی ہے اور جلد کی اندر تک جاتی ہے۔ اس پیوند کو بنانے میں صرف 82 سینٹ یا پاکستانی 125 روپے خرچ ہوتے ہیں۔
اب اگلے مرحلے میں بیکٹیریا پیوند کا موازنہ آکسیجن تھراپی سے کیا گیا اور چوہوں پر لگائے گئے ایک سینٹی میٹر کے زخموں پر انہیں آزمایا گیا۔ اگلے چھ دن میں آکسیجن تھراپی سے زخم 20 فیصد سکڑا اور الجی والے پیوند کا زخم 45 فیصد تک ٹھیک ہوگیا۔ اس عمل میں کوئی سائیڈ افیکٹ نہ دیکھا گیا جبکہ بیکٹیریا پیوند نے زخم کو تین روز قبل ہی مکمل طورپر بند کردیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بیکٹیریا والے پیوند عام آکسیجن تھراپی کے مقابلے میں 100 گنا زائد آکسیجن زخم کے اندر پہنچاتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں اسے انسانوں پر آزمایا جائے گا اور امید ہے کہ اس طرح زخم بھرنے میں بہت مدد مل سکے گی۔