مودی کی معذرت اور کپتان کی حکمت عملی
فیصلوں کے پس پردہ تفکر اور تدبر نہ ہو، تو وہ ہزیمت کا باعث بن جاتے ہیں، کچھ ایسا ہی نریندر مودی کے ساتھ ہوا۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا متنازع فیصلہ ہو یا شہریت بل؛ مودی سرکار ہر بار لڑکھڑائی۔ آج بی جے پی حکومت کے خلاف بھارت میں ایک طوفان بپا ہے۔ مسلم دشمن پالیسی بھی عیاں ہوگئی۔ روشن خیال بھارتیوں کی جانب سے بھی حکومتی فیصلوں کی شدید مذمت کی گئی، مگر مودی جی اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے شہرت کے زعم میں آگے بڑھتے چلے گئے۔
لاک ڈائون کے فیصلے کے پیچھے بھی جلدبازی اور جذباتیت کارفرما تھی۔ بے شک کورونا ایک عفریت ہے، جس سے مقابلہ سہل نہیں، مگر یہ پیش نظر رہے کہ بھارت کی آبادی ایک ارب تیس کروڑ ہے، اور اکثریت غربت کی لکیر کی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
چار گھنٹے سے بھی کم کے نوٹس پر پورے بھارت میں ۲۱ روزہ لاک ڈائون، بلکہ کرفیو کے بھارتی فیصلے کو چند ہی روز بعد کڑی تنقید کا سامنا ہے۔
ناقدین کا یہی کہنا ہے کہ فیصلے میں جلد بازی کی گئی، مناسب انتظامات نہیں کیے جاسکے، منصوبہ بندی کا بھی فقدان تھا، جس کی وجہ سے کروڑوں افراد کی زندگی اجیرن ہوگئی۔
نریندر مودی کو بھی اپنی بھیانک غلطی کا اندازہ ہوگیا، اس لیے وہ سرکاری تقاریر میں عوام سے معذرت کرتے دکھائی دیتے ہیں، تاکہ بھارتیوں کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوسکے۔
اپنے ہفتہ وار ریڈیو خطاب میں بھی انھوں نے کہا کہ وہ کروڑوں غریب خانداںوں کو گھروں تک محدود کرنے پر معافی چاہتے ہیں۔
ایک طرف مودی جی نے اس مہلک وائرس سے نمٹنے کے لیے گھبراہٹ میں کرفیو کا فیصلہ کیا، دوسری جانب پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک گیر لاک ڈائون سے اجتناب برتا اور یہ فیصلہ صوبوں کو کرنے کا اختیار دیا۔
عمران خان نے ابتدا ہی سے لاکھوں دیہاڑی دار خاندانوں کی بقا کو پیش نظر رکھتے ہوئے مکمل لاک ڈائون کے بجائے احتیاطی تدابیر کو پیش نظر رکھا۔ ساتھ ہی ایک بڑے ریلیف پیکیج کے اعلان، ٹائیگر فورس کے قیام اور ساتھ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ٹھوس حکمت عملی اپنانے کا اعلان کیا گیا۔
نریندر مودی کے مقابلے میں، جو اب اپنے ملک میں مذاق بن چکے ہیں، وزیر اعظم عمران خان کے فیصلوں میں تحمل کی جھلک دکھائی دی۔ دیہاڑی دار طبقے کے لیے فکر مندی بھی قابل تعریف ہے۔
بے شک کورونا ایک ہولناک وبا ہے، اس کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمیں اپنے حواس پر قابو رکھنا ہوگا۔
گھبراہٹ میں کیے گئے فیصلہ بعد میں کتنے کرب ناک ثابت ہوتے ہیں، اس کا جواب نریندر مودی کے پاس موجود ہے۔