سپریم کورٹ کی حکومتی انتظامات پر کڑی تنقید

اسلام آباد: چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ کورونا وائرس حکومت اور پی آئی اے کی نااہلی کی وجہ سے بیرون ملک سے آیا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سی ای او پی آئی اے ایئر مارشل ارشد ملک کی تعیناتی سے متعلق کیس پر سماعت کی۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ پائلٹ یونین اور پی آئی اے یونین سب کی کھینچا تانی سے پی آئی اے ہی متاثر ہورہا ہے۔ ایک حکومت آتی ہے وہ 600 لوگوں بھرتی کردیتی ہے،دوسری حکومت بھی اتنے لوگوں کو بھرتی کرتی ہے، تیسری حکومت جب آتی ہے تو سب کو نکال دیتی ہے، بعد میں سابقہ حکومت آکر نکالے گئے ملازمین کو گزشتہ مراعات دے کر دوبارہ بحال کردیتی ہے،
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آج پی آئی اے کو چلانے کے لئے حکومت خسارہ برداشت کررہی ہے، موجودہ ایم ڈی کو عہدے کو برقرار رکھنے پر میری ذاتی کوئی دلچسپی نہیں، ہم اس معاملے کو طول نہیں دینا چاہتے، چاہتا ہوں عدالت جلداز جلد اس پر فیصلہ کرے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ہم کیا کریں آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ارشد ملک نے کہا ہے کہ میں عدالت کے احترام میں واپس چلا جاتا ہوں، وزیراعظم نے کہا کہ یہ افسر اگر واپس چلا گیا تو کوئی اور قابل افسر پی آئی اے میں دلچسپی نہیں رکھے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر برا کام ایئر پورٹ پر جاری ہے، ایئرپورٹ پر کسٹم اور ایف آئی اے سمیت تمام ادارے مافیا ہیں، ایئرپورٹ پراداروں کے لوگ عوام کی تضحیک کے لئے بیٹھے ہیں، کوئی ایک اچھی چیزبتادیں جوعوام کےحق میں کی گئی ہو، کسی کو کوئی پروا ہی نہیں، اس وقت ہر جگہ ملک میں کورونا کی بات ہو رہی ہے، کورونا وائرس بارڈر اور ایئرپورٹس کے ذریعے ملک میں آیا ہے، اس وائرس کے تدارک کے لیے اداروں میں بیٹھے لوگوں نے کیا کیا؟، کورونا وائرس حکومت اور پی آئی اے کی نااہلی کی وجہ سے بیرون ملک سے آیا، اگر سیکیورٹی کا یہ حال رہا تو کون کون سی بیماریاں ملک میں آجائیں گی۔
سپریم کورٹ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو بطور سی ای او پی آئی اے بحال کرتے ہوئے عبوری طور پر کام کی اجازت دی، عدالت نے آئندہ سماعت پر ایئر مارشل ارشد ملک ، پی آئی اے انتظامیہ اور یونین عہدیداروں کو طلب کر لیا۔ عدالت نے پی آئی اے سے ارشد ملک کے دیے گئے ٹھیکوں کی تفصیلات بھی طلب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ انتظامیہ آگاہ کرے کن ٹھیکوں کا جاری رہنا ضروری ہے، کیس کی مزید سماعت 20 اپریل کو ہوگی۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔