سُلطان واقعی شیر تھے
سُلطان ابھی دستر خوان پر کھانا تناول فرمانے کے لیے بیٹھے ہی تھے جیسے ہی نوالا منہ کے قریب کیا, درباری نے آواز دی حضور انگریزوں کی فوج نے حملہ کردیا ہے، سُلطان نے ہاتھ وہیں روک دیا نوالا نیچے رکھا اور تاریخی جملے کہے سُلطان نے کہا ’بس میری زندگی کا سفر یہیں تک تھا اب کھانا میرے نصیب میں نہیں‘-
یہ وہ آخری مسلمان بادشاہ تھے جنہوں نے مسلمانوں کی غیرت کا جنازہ نہیں نکلنے دیا، جامِ شہادت نوش کرلیا پر جامِ شام و شباب کو ہاتھ تک نہ لگایا یہ وہی تھے جس کی شہادت کے کہیں گھنٹے بعد بھی انگریز اُن کے قریب جانے سے ڈر رہے تھے کہ زندہ ہوگا تو ہمیں شکست خردہ کر کے ذلیل وخوار کردیگا، انگریز بھی اس بہادر جرنیل کی بہادری کے قائل تھے واقعی شیر تھے اور شیر سی زندگی و موت پائی-
ٹیپو وہ زیرک حکمران تھا جو بروقت جنگ اور صلح کے لیے تیار رہتا تھا۔ اُس کی حکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو اُس تخت نشینی کے بعد سے ہی وراثت میں کانٹوں کی سیج ملی۔ ٹیپوکے والد حیدر علی کا اکیس سالا حکمرانی انگریزوں سے جنگ کرتے ہوئے گزری۔ حیدر علی کے انتقال کے بعد میسور کی تخت نشینی ٹیپو سلطان نے سنبھالی۔ وقت نے حکمرانی تو عطا کردی لیکن ساتھ میں آزمائش کا دور شروع ہوگیا۔ باپ کی ادھوری جنگ بیٹے نے جاری رکھی اور اس طرح جاری رکھی کہ انگریزوں کو مجبوراََ صلح کی پیش کش کرنی پڑی۔
ٹیپو سلطان بھی لڑتے لڑتے تھک چکا تھا چنانچہ جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا۔ یہ امن معاہدہ طے پاتے ہی ٹیپو سلطان ہندوستان میں ہیرو بن گیا اور ٹیکنیکلی طور پر اسے ہی اس جنگ کا فاتح مانا جانے لگا۔ انگریزوں نے صلح تو کرلی لیکن یہ بات ان کو بہت کھٹکی کہ ہمیں اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے، برطانیہ میں صفِ ماتم بچھ گیا۔
انگریز سمجھ گئے کہ ہندوستان پر قبضہ کرنا ہے تو ٹیپو سلطان کو راستے سے ہٹانا ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے ٹیپو سلطان کی کمزوری ڈھونڈنا شروع کی۔ ٹیپو سلطان تھا تو ایک بہادر حکمران لیکن اُس میں کچھ خامیاں تھیں، وہ درباری چالوں کو نہیں سمجھتا تھا۔ وہ چونکہ روایتی سیاست دان نہیں تھا اس لیے اُسے مکاری اور چالاکی بھی نہیں آتی تھی۔ اُس نے دربار میں نئے لوگوں کو شامل کیا جس سے پرانے لوگوں کو یہ لگا کہ وہ نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ٹیپو سلطان کے خلاف ان کے اپنے پرانے وزیر میر صادق نے سازش کرنا شروع کردی۔
انگریزوں کو جب اس بات کا علم ہوا تو اُنہوں نے میر صادق اور اس کے ساتھیوں کو دولت کی لالچ دے کر انہیں غداری پر آمادہ کرلیا، چنانچہ اپنے ساتھیوں کی غداری کے سبب انگریزوں نے ٹیپو سلطان پر حملہ کردیا لیکن وہ حملہ ناکام رہا اور انگریزوں کو ایک بار پھر شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ مورخ لکھتا ہے کہ ٹیپو سلطان کے پاس ایک اچھا موقعہ تھا اُس شکست خوردہ انگریزی افواج کو وہی ختم کردیتا لیکن اُس نے رحم دلی سے کام لیا اور انگریز فوجیوں کو جانے دیا۔
کہتے ہیں جنگ اور محبت میں سب جائز ہے، انگریزوں نے اس رحم دلی کو اپنی بے عزتی تصور کیا اور بدلہ لینے کے لیے پہلے سے زیادہ افواج تیار کی اور حملہ کردیا۔ قسمت نے اس بار انگریزوں کا ساتھ دیا اور ٹیپو سلطان کو اس بار شکست ہوئی۔ لیکن شکست بھی کیسی کہ انگریز مورخ تک ٹیپو سلطان کی موت کی تعریف کرتے رہ گئے۔ یہ شخص مردہ تھا لیکن اس کے چہرے سے محسوس ہوتا کہ اٹھ کر ابھی سب کچھ تہس نہس کردے گا۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز ٹیپو سلطان کی شہادت کے کئی گھنٹے بعد بھی اُس کے قریب نہ جا سکے۔