امریکا میں نسل پرستی کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرگئے
واشنگٹن: امریکا میں ایک اور سیاہ فام کی ہلاکت کے بعد نسل پرستی کے خلاف احتجاج میں شدت آگئی۔
پولیس حراست میں ہلاک ہونے والے سیاہ فام جارج فلائیڈ کے بعد دو روز قبل 27 برس کے ریشارڈ بروکس کو بھی پولیس نے اٹلانٹا میں گولی مار کر ہلاک کردیا۔
پولیس کے مطابق انہیں اطلاع دی گئی تھی کہ ایک شخص ریسٹورنٹ کے ڈرائیو تھرو حصے میں پارک کی گئی گاڑی میں سورہا ہے جس کی وجہ سے دیگر کسٹمر اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ سیاہ فام شخص نے گرفتاری کے دوران مزاحمت کی اور مبینہ طور پر پولیس کا ٹیزر لے کر بھاگنے کی کوشش کی اور اس دوران دو پولیس اہلکاروں میں سے ایک نے سیاہ فام شخص پر گولی چلا دی جس سے وہ ہلاک ہوگیا، تاہم گولی چلانے والے پولیس اہلکار گیرٹ روفیل کو برطرف کردیا گیا۔
اس صورت حال میں امریکا میں نسل پرستی کے خلاف احتجاج میں مزید شدت آگئی ہے۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں Black Lives Matter کے تحت پُرامن مارچ اور احتجاج کیا گیا جب کہ اسی طرح دیگر شہروں میں بھی مظاہرین نے سیاہ فاموں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے پر آواز بلند کی۔
دوسری جانب نسل پرستی کے خلاف برطانیہ کے شہر لندن اور لیڈز میں بھی ہزاروں افراد نے مظاہرے کیے۔
نیوزی لینڈ کے شہروں ویلنگٹن اور آکلینڈ میں بھی ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور مظاہرین نے نسل پرستی کے خلاف نعرے بازی کی۔
ادھر فرانس کے صدر میکرون کا کہنا ہے کہ وہ متنازع عوامی شخصیات کے مجسمے ہٹانے یا تاریخ مٹانے کی کوشش نہیں کریں گے لیکن انہوں نے واضح کیا کہ فرانس میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا بلکہ مساوات کے لیے نئے فیصلے کیے جائیں گے۔