یوم مزدور اور خواتین
امریکا کے شہر شکاگو سے 1886ء میں شروع کیا جانے والا یوم مزدور یکم مئی کو ہر سال دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس روز دنیا بھر کے اخبارات مزدوروں کی حالت پر مراسلے اور مضامین شائع کرتے ہیں لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس اہم ترین دن پر خواتین مزدوروں کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
یہ خواتین دنیا بھر میں موجود کھیتوں میں سردی، گرمی اور برسات کے موسم میں بھی محنت کرتے نہیں گھبراتیں اور مردوں کے شانہ بشانہ اپنی محنت دنیا کی پیداوار میں شامل کرتی ہیں۔ روس، چین، کیوبا اور دیگر اشتراکی نظام معیشت والے ممالک کے ساتھ ساتھ امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر سرمایہ دارانہ نظام والے ممالک میں بھی یہ خواتین کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ صنعتی میدان میں بھی مردوں کے ساتھ برابری سے کام کر رہی ہیں۔
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بیش تر ممالک میں خواتین محنت کشوں کی محنت کا معاوضہ مرد محنت کش کے مقابلے میں آدھا ہے۔ عورت کو آدھی دیہاڑی دینے والوں می بڑی معیشت رکھنے والا ملک بھارت بھی شامل ہے۔
عالمی سطح پر خواتین محنت کشوں کے لیے کام کرنے والے اداروں اور تحقیق کار اداروں کا کہنا ہے کہ معاشرے کی تیز رفتار ترقی اور سماجی برابری کو یقینی بنانے کے لیے خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ماہرین خاص طور پر دیہی علاقوں کی محنت کش خواتین کو نہ صرف معقول معاوضے بلکہ طبی، تعلیمی اور قانونی حقوق بھی ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
پاکستان میں بھی محنت کش خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جو کھیتوں، اینٹوں کے بھٹوں، کارخانوں، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق اداروں، صحافت، اسپتالوں کے ساتھ ساتھ سڑکوں اور گلیوں کی صفائی کے کام سے وابستہ ہیں۔
ملکی شہری علاقوں میں پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت سے آراستہ خواتین بہت سے محنت کش مردوں سے زائد آمدنی کماتی ہیں، لیکن دیہی علاقوں میں خواتین محنت کش سماجی اور معاشرتی عوامل کی وجہ سے اس ترقی یافتہ دور میں بھی پسماندہ زندگی بسر کررہی ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے، مویشی پالنے اور بچوں کی پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ امور خانہ داری انجام دینے والی ان خواتین کو زیادہ تر کو جائیداد میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا، نہ ہی ان کی ملکیت میں زرعی یا رہائشی اراضی دی جاتی ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی اکثر تنظیمیں اس حق کے لیے کام کررہی ہیں۔ پاکستان جو ایک دہائی قبل تک پچاسی فیصد زرعی پیداوار رکھنے والا ملک تھا، اب اس کی زرعی اراضی پینسٹھ فیصد تک رہ گئی ہے اور اس طرح زرعی میدان میں کام کرنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد زرعی کام کاج اور زراعت سے منسلک دیگر صنعتوں میں کام کے مواقع کھوتی جارہی ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور دنیا بھر میں بسنے والی محنت کش خواتین کو ان کا جائز معاوضہ دلانے کے لیے کام کیا جائے اور ایسی قانون سازی کی جائے کہ ہم جب بھی محنت کشوں کا دن منائیں تو اس طبقے کے ایک بڑے حصے یعنی خواتین محنت کشوں کو بھی یاد رکھیں۔ مردوں کے لیے زندگی تیاگ دینے والی یہ محنت کش خواتین بھی اپنی مزدوری اور دیگر مراعات کی اتنی ہی مستحق ہیں، جتنے کہ مرد۔ اگر ملک میں مناسب قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے ذریعے ان محنت کش خواتین کو ملکی آمدنی میں برابری کا حصہ دے دیا جائے تو کوئی ہم بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکتے ہیں۔