انسان آخر چاہتا کیا ہے؟

انجینئر بخت سید یوسف زئی
(engr.bakht@gmail.com)
(بریڈ فورڈ، انگلینڈ)
دُنیا کی حقیقتوں کو اگر کھلی آنکھ سے دیکھا جائے تو انسان کو ایک عجیب سا تضاد ہر طرف بکھرا ہوا ملتا ہے۔ کتابیں ہمیں کچھ اور سکھاتی ہیں مگر زندگی کا بازار کچھ اور ہی منطق پر چلتا ہے۔ سچ کو ہمیشہ فضیلت دی جاتی ہے، لیکن عملی دنیا میں اکثر لوگ جھوٹ کی چادر اوڑھ کر ہی خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہی جھوٹ کبھی سفارت کاری کہلاتا ہے، کبھی مجبوری اور کبھی مصلحت، مگر سچ اپنے پورے وزن کے ساتھ ہمیشہ کمزور ہی محسوس ہوتا ہے، گویا یہ کسی دیوانے کا شغل ہو۔ انسان کہتا ہے سچ بولنا چاہیے مگر دل کی گہرائی میں جانتا ہے کہ سچ کی قیمت اکثر بہت بھاری ہوتی ہے، اس لیے جھوٹ کا سہارا زیادہ آسان لگتا ہے۔
خوش اخلاقی کی بات ہر مجلس میں ہوتی ہے۔ نصیحتوں میں، وعظ و بیان میں، کتب میں، ہر جگہ نرم گفتاری کو خوبی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے رویّے اکثر اس کے بالکل برعکس چلتے ہیں۔ بدتمیز، تیز مزاج اور سخت لہجے والے لوگوں کو ہم سیدھا سچا سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں، جیسے اُن کا بے باک ہونا ہی دلیلِ سچائی ہو۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بدتمیزی کبھی سچ کا معیار نہیں رہی مگر ہماری طبیعتیں عجیب ہیں، ہم نرمی کو کمزوری سمجھ بیٹھے ہیں اور سختی کو دیانت داری۔
نظرانداز کردینا بھی کتنا عظیم وصف ہے، لیکن ہمارے عملی رویّوں میں اس کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے۔ ہم کہتے تو یہی ہیں کہ بڑے دل والے لوگ تلخیوں کو چھوڑ دیتے ہیں، چھوٹی بات کو نظرانداز کرنا عقل مندی ہے، مگر ہم میں سے اکثر ہر بات کو دل پر، پھر دماغ پر اور پھر زبان پر سوار کرلیتے ہیں۔ نظرانداز کرنا جہاں ہمارے لیے مشکل بن جائے وہاں انا خاموش نہیں رہنے دیتی اور ہم اسی انا کو عزت کا نام دے کر اپنی کمزوری کو فضیلت سمجھنے لگتے ہیں۔
عاجزی اور سادگی کی باتیں بہت دلکش لگتی ہیں۔ کتابیں بتاتی ہیں کہ عاجزی انسان کو بلند کرتی ہے اور تکبر اُس کے مقام کو گرادیتا ہے مگر ہم عملی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ لوگ تکبر کو شخصیت سمجھتے ہیں اور سادگی کو پس ماندگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بڑوں کے ساتھ تصویریں بنانے اور شیئر کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، جیسے کسی بڑے شخص کے ساتھ تصویر ہمیں بڑا بنادیتی ہے۔ اگر سادگی اور عاجزی ہمیں پسند ہوتیں تو ایسی نمائش کبھی ہمارا شوق نہ بنتی۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاشرے میں اپ رائٹ ہونا سب سے مشکل کام ہے۔ اصولوں پر کھڑے رہنے والے کو ہم عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں، جیسے وہ کوئی غیر دنیاوی مخلوق ہو، جسے حالات کی سمجھ ہی نہ ہو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اصول پرستی انسان کو نقصان دیتی ہے جب کہ سمجھوتے ہی زندگی کا اصل فن ہیں۔ اسی سوچ نے سچائی، اصول اور شرافت کو کمزور کردیا ہے، حالانکہ انہی صفات پر دنیا کی اصل خوبصورتی قائم تھی۔
سوشل میڈیا اس حقیقت کو اور بھی واضح کردیتا ہے۔ یہاں ہر شخص اپنی پسند کے مطابق لوگوں کو جواب دیتا ہے۔ عام لوگوں کے کمنٹ نظرانداز کردیے جاتے ہیں، بڑے ناموں یا قریبی لوگوں کو فوراً جواب مل جاتا ہے اور جب کہا جاتا ہے کہ "ہم مصروف تھے”، تو یہ جملہ اکثر صرف ایک تہذیبی پردہ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جواب نہ دینا بھی ایک طرح کا انتخاب ہے اور جواب دینا بھی ایک طرح کی سیاست۔
دلچسپ بات کہ جسے لوگ نظرانداز کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ حقیقت میں سب کچھ پڑھ بھی رہے ہوتے ہیں اور سمجھ بھی رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بدتمیزی کرے تو بلاک کردیا جاتا ہے اور یہ درست ہے، لیکن یہی بلاک کرنے کا عمل اس بات کی دلیل ہے کہ انسان سب کچھ دیکھتا ہے، سب سمجھتا ہے اور سب محسوس کرتا ہے۔ یہ فطری رویّے ہیں مگر یہ اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ ہم اندر سے کتنے حساس اور خود مرکز ہوتے جارہے ہیں۔
ان تمام تضادات کو دیکھ کر کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کتابی باتوں کی اہمیت دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔ وہ کتابیں جو سچائی، اخلاق، برداشت، عاجزی اور اصولوں کا درس دیتی ہیں، وہ آج کی دنیا میں شاید صرف درسی جملوں تک محدود رہ گئی ہیں۔ عملی زندگی کا معیار کچھ اور ہی ہے اور لوگ اسے حقیقت کا نام دے چکے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی کتابی باتوں کی حیثیت راکھ برابر رہ گئی ہے؟ یہاں انسان کا ایک اور مخفی پہلو سامنے آتا ہے۔ ہم بھلے خود جھوٹ کو سہارا بنائیں مگر چاہتے ہیں کہ کوئی ہمارے ساتھ سچ بولے۔ ہم چاہے سخت لہجے والوں سے متاثر ہوجائیں مگر دل چاہتا ہے کہ کوئی ہمارے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔ ہم چاہے عاجزی کو مشکل سمجھیں مگر چاہتے ہیں کہ دوسرے ہمارے سامنے عاجزانہ رویّہ رکھیں۔ یہ دوغلا پن نہیں بلکہ انسانی فطرت کی پیچیدگی ہے، جو انسان کو کبھی ایک طرف لے جاتی ہے، کبھی دوسری جانب۔
اسی دوران قرآن پاک کا یہ جملہ انسان کے دل میں گونج اٹھتا ہے: "اور سچ تو یہ ہے کہ انسان واقعی بڑا ہی بے صبر اور کمزور پیدا کیا گیا ہے۔” یہ کمزوری اس کے ہر عمل میں جھلکتی ہے، کبھی جھوٹ کی شکل میں، کبھی غصے کی، کبھی دکھاوے کی اور کبھی انا کی صورت میں۔
انسانی رویّوں میں ایک اور عجیب پہلو یہ ہے کہ ہم اپنی کمزوری کو تسلیم کرنے سے جھجکتے ہیں۔ ہم اپنی غلط فہمیوں کے لیے بہانے ڈھونڈتے ہیں، اپنی انا کو عزت کا نام دیتے ہیں اور اپنی کوتاہیوں کو مجبوری کہہ کر گزر جاتے ہیں مگر جب دوسروں میں یہی رویّے دیکھتے ہیں تو سخت ناراض ہوجاتے ہیں۔ یہ تضاد تعلقات کو کمزور بھی کرتا ہے اور انسان کو تنہائی کی طرف بھی لے جاتا ہے۔
زندگی کے تجربات بتاتے ہیں کہ سچائی کا سفر مشکل ضرور ہے مگر بے معنی نہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ کم ملتے ہیں جو نہ صرف سچ بولتے بلکہ سچ برداشت بھی کرتے ہیں۔ خوش اخلاقی بھی اگر سچی ہو تو دلوں کو فتح کرلیتی ہے، لیکن اس کے لیے انسان کو اپنے اندر سے تلخی دُور کرنا پڑتی ہے اور یہ عمل سب سے زیادہ مشکل ہے۔
نظرانداز کرنا بھی آسان نہیں۔ چھوٹی باتوں کو چھوڑ دینا بڑی انسانیت کی علامت ہے، مگر تلخ یادیں دل پر بوجھ بن کر بیٹھ جاتی ہیں۔ بعض اوقات انسان انہیں بھولنا چاہتا ہے لیکن دل انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس لیے نظرانداز کرنا ایک فن ہے اور یہ فن ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا۔
عاجزی انسان کو بڑا بناتی ہے مگر ہمارے زمانے میں اسے کمزوری سمجھ لیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عاجزی وہ طاقت ہے جسے دکھانے کے لیے انسان کو اپنی انا کو مارنا پڑتا ہے۔ وہ لوگ جو اندر سے مضبوط ہوتے ہیں، وہی عاجزی کے قابل ہوتے ہیں۔ کمزور لوگ ہمیشہ تکبر کی چادر اوڑھ کر بیٹھتے ہیں، تاکہ اپنی اصل کمزوری چھپاسکیں۔
اپ رائٹ ہونا یعنی اصولی ہونا، آج کی دنیا میں شاید سب سے بڑا امتحان ہے۔ اصول پر کھڑا رہنے والا اکثر اکیلا رہ جاتا ہے جب کہ سمجھوتہ کرنے والوں کے لیے راستے آسان ہوتے جاتے ہیں مگر تاریخ بتاتی ہے کہ وہی لوگ یاد رکھے جاتے ہیں جنہوں نے اصول نہیں چھوڑے۔
حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے: "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر ہو۔” یہ جملہ انسان کو آئینہ دکھاتا ہے۔ اگر اخلاق ہی اصل معیار ہے تو پھر سخت لہجے، تیز گفتگو اور تکبر کو خوبی سمجھنا کتنا بڑا دھوکا ہے۔
یہ دنیا واقعی تضادات سے بھری ہوئی ہے۔ کتابیں ہمیں جس دنیا کی طرف بلاتی ہیں، حقیقت اس سے بالکل مختلف دکھائی دیتی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کتابی باتیں چاہے کمزور ہوجائیں، وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ انسان جب تھکتا ہے، جب دنیا دھوکوں سے بھر جاتی ہے تو وہ انہی کتابی باتوں میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ سچ، اخلاق، تحمل، عاجزی اور اصول، یہ سب وقتی طور پر پس منظر میں چلے جائیں مگر انسان ان کی ضرورت کبھی محسوس کرنا نہیں چھوڑتا۔
آخر میں یہی کہنا مناسب ہے کہ دُنیا جیسے بھی چلتی ہو، کتابی باتیں کبھی بے وقعت نہیں ہوتیں۔ وہ نہ صرف انسان کو بہتر بناتی ہیں بلکہ اس کے اندر کی تاریکی کو بھی کم کرتی ہیں۔ اگر ہم حقیقت کی دنیا میں رہتے ہوئے تھوڑی سی جگہ ان اصولوں کے لیے نکال لیں تو شاید ہماری زندگی بھی زیادہ خوبصورت ہوجائے۔ انتخاب ہمیشہ انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس راستے کو اختیار کرتا ہے۔