تذکرہ ایک محفل سماع کا۔۔۔

اقبال خورشید

صاحبو، وہ ایک طلسماتی لمحہ تھا۔
وہاں عقیدت تھی، ایک پُرسکون سی گہما گہمی تھی اور دوستوں کا ساتھ تھا؛ ایسے لمحات جو خال خال ہی میسر آتے ہیں، جب حقیقت طلسم لگنے لگتی ہے اور طلسم حقیقت۔
ہارمونیم کے سُروں اور طبلے کی تھاپ کا امتزاج، جس کے ساتھ قوال کی پاٹ دار آواز بلند ہوتی۔
اللہ۔
اور وقت ٹھہر جاتا۔
اس شام "وائس آف سندھ” نے ربیع الاول کی مناسبت سے محفلِ سماع کا انعقاد کیا تھا۔ جمشید صابری برادرز نے اسٹیج سنبھالا۔ جب میں وہاں پہنچا، تو محفل سماع عروج پر تھی۔ دادا بھوائے انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن "وائس آف سندھ” کا دفتر ہے، عبدالغنی دادا بھوائے جس کے پیٹرن انچیف، وہیں یہ محفل سجی۔
"وائس آف سندھ” کا میرے کیریئر میں اہم کردار رہا۔ ایک جانب جہاں میں نے روزنامہ ایکسپریس، روزنامہ دنیا، اے آر وائی اور جنگ جیسے اداروں میں وقت گزارا، وہیں دو برس وائس آف سندھ میں بھی بیتے۔ تھی تو وہ ملازمت، مگر معاملہ گھر جیسا ہی تھا۔


ڈاکٹر عمیر ہارون ہمارے ڈائریکٹر تھے۔ ان کے ساتھ ایکسپریس میں بھی کچھ ملاقاتیں رہیں۔ یوں تو ہمارے ہیڈ تھے، مگر اس محبت اور خلوص سے پیش آتے کہ آدمی ان کا گرویدہ ہوجاتا۔ سوچنے کے نئے زاویے ان کے پاس تھے۔ چیزوں کو پریذینٹ کرنے کا ہُنر میں نے ان سے سیکھا۔
وہیں برادرم احسن لاکھانی سے ملاقات ہوئی، اور ایسا تعلق بنا، جو اب عشروں قائم رہے گا۔ احسن لاکھانی کو ہم ایک ابھرتے ہوئے اینکر پرسن اور موٹیویشنل اسپیکر کے طور پر بھی جانتے ہیں، مذہبی مناظرے کا فن بھی جانتے ہیں۔ وہ میرے لیے ایک مخلص دوست ٹھہرے۔
اور پھر وائس آف سندھ میں عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگے۔
سمجھ لیجیے جادوئی حقیقت نگاری وہاں در آئی۔ میرا دوست، بلکہ ایسا دوست جس کے ساتھ میں نے کیریئر کے اوائل کئی برس گزارے، وہ میری تحریروں میں املا کی غلطیوں کی نشان دہی کیا کرتا، جملہ چست کرنے کا ہُنر سکھاتا، مجھے بتاتا کہ "اخبار کی خبر میں ہلاک ہونے والے لوگ نہیں، افراد ہوتے ہیں”، یعنی راحیل وارثی، جس کے ساتھ میں نے ایکسپریس میں ایک عرصے کام کیا۔
وہی راحیل وارثی اچانک ایک دن میرے بلاوے پر وائس سندھ پہنچا، اور اس کا اٹوٹ انگ بن گیا۔
اور پھر میرا دوست، میرا بھائی اور اے آر وائی میں میرا تھوڑا بہت باس، فواد رضا بھی "بول ٹی وی” پر محفل سجا کر گھومتا پھرتا وہاں آن پہنچا۔ ماحول دو آتشہ ہوگیا۔
وہیں میرا دوست اور میرا دشمن، محمد اذلان نامی ایک شخص بھی ہوا کرتا تھا۔ بدتمیز، منہ پھٹ اور محبت اور احترام کرنے والا نوجوان۔ میں اور فواد اسے "لافنگ بدھ "کہتے تھے۔ (افسوس، ہم بھی کتنے جاہل تھے۔)
میرا بھائی، رانا محمد آصف بھی چند روز ادھر رہا۔ پھر ایکسپریس ویب کی سمت چل دیا۔ تب ہم کثرت سے ملا کرتے۔


جناب زاہد حسین جیسے اساتذہ بھی ہم سے آن ملے۔ کیسی خوش نصیبی تھی۔ زاہد بھائی بھی اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ الجھتے، سلجھتے، سکھاتے، لطیفے سناتے، اور مسکرائے جاتے۔
معروف کالم نگار اور اینکر ثنا غوری بھی وائس آف سندھ کا حصہ رہیں۔ وہ آئیں، وہ وائس آف سندھ کو بھی نئی جہت ملی۔ اینکر اور براڈ کاسٹر، فائزہ قریشی کی اس پروجیکٹ سے طویل وابستگی ہے۔ باقاعدگی سے پروگرام کرتی رہیں۔
اور بھی کئی دوست تھے۔ مثلاً ہمارے نوجوان ساتھی مہروز احمد، جو پروڈکشن اور ایڈیٹنگ کا جھنجٹ سنبھالتے۔ سینئر صحافی، علی عابد سومرو، جو سندھی ویب سائٹ کے ایڈیٹر تھے، اور اب بھی ہیں۔ فہیم سلیم نامی نوجوان، جو آئی ٹی کے شعبے کو سلجھانے کی سعی کرتا۔ آغاز میں شعیب بھائی ہمارے ساتھ رہے۔ دانش بھائی کیمرے کو سنبھالے پھرتے۔ اور پھر معروف نیوز کاسٹر اور اینکر ناجیہ میر صاحبہ، جو وائس آف سندھ کا چہرہ تھیں۔ ان کی موجودگی سے اردو اور سندھی زبان کے درمیان ایک پل قائم ہوتا۔
اتنے نام لینے کے بعد بھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ کچھ نام شاید رہ گئے، مگر اصل شے تھی، "وائس آف سندھ”، جہاں ہم ڈاکٹر عمیر کی قیادت میں ناقابلِ یقین محفلیں سجایا کرتے۔ میں اسکرپٹ لکھا کرتا تھا۔ پھر اس کے ریڈنگ سیشن ہوتے۔ ویڈیو بنتی۔ میں پرانا کوٹ پہنے پہنچ جاتا۔
وہاں ہم نے "ڈارک روم تھیٹر” کا ایک انوکھا تجربہ کیا، گرفت میں نہ آنے والے چند خیالات کو تجرباتی ڈراموں کی شکل دی۔ گھوڑے اور بگھیاں لا کر شوٹنگ کی۔ ساجد حسن، محمد علی اور حنا دل پذیر جیسے فن کاروں کے ساتھ ڈرامے کیے۔


کبھی ڈراک روم میں علامہ اقبال اور عمران خان کو آمنے سامنے لا بٹھایا۔ کبھی داستان گوئی کی محفل سجائی اور سندھ کی داستان بیان کی۔ مشاعرہ بھی ہوا، جس کی باگ ڈور زاہد حسین صاحب نے سنبھالی۔
ادھر وائس آف سندھ نے پوڈکاسٹ کیے، اوپن مائیک کیا، ریڈنگ سیشنز کیے۔ عثمان جامعی کے ناول پر سیشن رکھا۔ اردو، انگریزی اور سندھی کی وبب سائٹ نکالی۔ اسٹوری آف انڈس سویلائزیشن جیسی باکمال اور منفرد کتاب شائع کی۔ یہ کتاب ڈاکٹر عمیر کا وژن تھا، جسے فواد رضا، محمد علی اذلان اور سید شہزاد مسعود نے حقیقت کا روپ دیا۔
جانے وہاں، کیا کچھ رونما ہوا۔ پوری داستان ہے۔
تو صاحبو، آج جس محفل میں، میں پہنچا ہوں، وہاں اسٹیج سجا ہے، محفلِ سماع جاری ہے اور عقیدت کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔
وہاں میں سفید چادروں پر بیٹھے لوگوں میں اپنے دوست احسن لاکھانی کو پہچانتا ہوں۔ چہرے پر مسکراہٹ سجائے مہروز، فہیم، سومرو صاحب سے ملاقات ہوتی ہے، اور پھر ڈاکٹر عمیر چلے آتے ہیں، اسی گرم جوشی سے گلے ملتے ہیں، اور پھر ہم اس محفل کا حصہ بن جاتے ہیں۔
یہ محفل، جو عقیدت کے جذبے اور محبت کے نور سے پُر تھی، میرے ذہن پر نقش ہوئے چلی جاتی ہے۔
قوال کی آواز بلند ہوتی ہے۔ عقیدت کی ایک لہر سی اٹھتی ہے۔ میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔
آواز دوست سنائی دیتی ہے۔
بہیترے کچھ رونما ہورہا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔