حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
آج ایک چینل پر کراچی میں بارشوں سے متعلق خبر نشر ہوئی۔ خبر سن کر بہت عرصے بعد میں بہت ہنسا۔ خبر کچھ یوں پڑھی گئی، کراچی میں مون سون کے پہلے ہی اسپیل میں انتظامیہ کی کارکردگی کی قلعی کھل گئی۔ کراچی کی انتظامیہ مسائل کے حل کی دست درازی میں ناکام ہوگئی۔
خبر سن کر ہنسی تو آئی، لیکن دست درازی سے مجھے ایک دہائی قبل اندرونِ سندھ آنے والے بدترین سیلاب کے دوران ایک چینل پر سیلاب زدگان کی امداد کے لیے کی جانے والی ٹیلی تھون ٹرانسمیشن یاد آگئی۔ اس ٹیلی تھون میں ایک سابق مقتدر شخصیت بھی شریک تھی۔ اس ٹرانسمیشن کی میزبان (جو، اس، وقت بھی بڑی اینکر ہوا کرتی تھیں، اور اب مزید بڑی اینکر بن چکی ہیں) نے فرمایا، “ناظرین! سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے ہماری یہ خصوصی ٹرانسمیشن ہے۔ ملک کی بڑی سماجی اور سیاسی شخصیت اور کرکٹ اسٹار عمران خان صاحب ہمارے ساتھ اس ٹیلی تھون میں موجود ہیں۔ آئیے اپنے پریشان حال بھائیوں کی مدد کے لیے آگے آئیں۔ ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائیں۔ ہم آپ کی ‘دست درازی’ کے منتظر ہیں۔” اففف! محترمہ نے اپنے طور پر دست درازی کو ہاتھ بڑھانے کے معنی میں استعمال کیا تھا۔
دوسرا واقعہ جنوری 2014 کا ہے۔ ایک چینل سے داؤدی بوہرہ فرقے کے روحانی پیشوا سیدنا برہان الدین کی رحلت کے بریکنگ ٹکرز چل رہے تھے۔ خبر بڑی تھی، لہٰذا ڈیسک پر ایک کھلبلی مچ گئی۔ کوئی مرحوم کی تصویر نکالنے میں مصروف ہے تو کوئی پروفائل پیکیج لکھنے میں مصروف ہے۔ حیرت انگیز طور پر دوست اتنی بڑی شخصیت کے نام سے بھی نابلد تھے۔ فوری طور پر خبر کو ہیڈلائن میں شامل کیا گیا۔ نو بجے کا پرائم ٹائم بلیٹن اسی خبر سے شروع کیا گیا۔ جب یہ خبر، آن اٰیئر ہوئی تو دیکھ کر اور، سن کر میرا لہو خشک ہوگیا۔ اسکرین پر سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کی تصویر چل رہی تھی اور معروف اینکر پوری انرجی کے ساتھ فرما رہی تھیں، “بلیٹن کے آغاز میں شامل کریں گے ایک افسوس ناک خبر۔۔۔ داؤدی بوہرہ جماعت کے روحانی پیشوا سیدنا برہان الدین انتقال کرگئے ہیں۔” یہ خبر کیا تھی ایک بم سا تھا جو میرے دماغ پر گرا تھا۔ بہرحال فوری طور پر صورت حال کنٹرول کرتے ہوئے کمرشل بریک پر گئے اور چند منٹس کے اشتہارات کے بعد بریک سے واپس آئے، پھر درست تصویر اور درست نام کے ساتھ خبر دوبارہ پڑھی گئی۔ اگلے روز ان خاتون اینکر کو ایک ہفتے کے لیے آف ایئر کردیا گیا تھا۔
ایک اور خبر، جس میں اینکر نے پیرامپٹر پر دیکھنے کے بعد بھی لاعلمی میں ایک لفظ غلط ادا کیا۔ ہوا، کچھ یوں کہ برطانوی دارالعوام (ہاؤس آف کامنز) نے اس، وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی پیش کردہ ایک قرارداد مسترد کردی تھی۔ اینکر نے “برطانوی !دارالعوام” کو بڑے طمطراق سے “برطانوی دارالعلوم” پڑھا۔ سونے پر سہاگا بلیٹن کے بعد میرے پاس آکر مجھ سے شکایت بھی کی کہ میں نے خبر میں برطانوی دارالعلوم کا نام نہیں لکھا۔
پنجاب اسمبلی کے حالیہ ضمنی انتخاب میں بھی ایک چینل کی اینکر نے ہنسنے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ خبر صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 202 سے متعلق تھی۔ اس خبر میں موصوفہ نے پی پی دو سو دو کو پیپلز پارٹی دو سو دو پڑھ دیا۔
اسی طرح آج کل بارشوں کی خبروں میں کسی رپورٹر سے کیے جانے والے بیپر میں انتہائی بھونڈے انداز سے پوچھا جاتا، “جی ثاقب بتائیے گا کہ حکومت نے پانی نکالنے کے لیے کیا انتظام کیا ہے؟” اور جواب میں رپورٹر صاحب فرماتے ہیں، جی میں آپ کو بتاتا چلوں کہ حکومت کی جانب سے ‘پانی نکالنے’ کے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ٹریفک کی ‘روانگی’ شدید متاثر ہے۔
ان واقعات کے تذکرے کا مقصد کسی اینکر یا ڈیسک کے دوست کی تضحیک یا دل آزاری نہیں۔ میں دراصل روزمرہ احوال کو تحریر کے قالب میں ڈھال رہا ہوں۔ ان تحریروں کا مقصد، اپنی آنے والی کتابوں کے لیے مواد یکجا کرنا اور ان مضامین کے ذائقے سے آپ سب کو مانوس کرانا ہے۔ اگر، آپ ان تحریروں کو پڑھ رہے ہیں تو اپنا فیڈ بیک ضرور دیجیے، تاکہ میں ان تحریروں میں رہ جانے والی کمی اور کوتاہیوں کو دُور کرسکوں۔ آپ کی رہنمائی مجھے اپنی تحریروں کی سمت متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔