خود کشی (حصہ اول)
خود کشی کرنے والے شخص کی آخری سوچوں پر مبنی قسط وار تحریر
اداسی کی ایک ایسی گھڑی جب مجھے پھانسی کے پھندے میں بیک وقت خوف اور چھٹکارا نظر آتا تھا۔ یہ رات کا آخری پہر تھا، دنیا خواب میں ڈوبی ہوئی تھی، کچھ لوگ اپنے سپنوں میں حسین دوشیزاؤں کے ملائم جسموں کو اس طرح ٹٹول رہے تھے جیسے موچی چمڑے کو چھیدنے سے پہلے ٹٹول کر اپنی کھردری اور لاغر انگلیوں کو نرم چمڑے پہ پھیر کر دیکھتا ہے کہ میری ہاتھوں کی چمڑی آخر اتنی سخت کیوں ہے؟
کیا خدا نے آسمانوں کی مقدس دیواروں پہ یہ بات لکھی ہے کہ میں موچی بن جاؤں؟ خدا! ہائے، میرے اکلوتے اور ستر ماؤں سے زیادہ شفیق خدا، کیا آپ نے آسمانوں کی ان مقدس بابرکت دیواروں پر موچی جیسا گھٹیا لفظ اس لئے کنندہ کیا ہے کہ ایک گھٹیا رذیل شخص پیدا ہونے جارہا ہے جسے معاشرے میں ہمیشہ اپنی تقدیر اور کامیابی دوسروں کی جوتوں میں نظر آئیگی؟ میں سوال نہیں کرتا کیونکہ بقول مولوی صاحب کے کہ سوال کرنا عقیدے کی نفی کا مترادف ہے۔ تو پھر کیا قیامت کے دن میرے اعمال نامے ان بھاری بھرکم جوتوں کے ڈھیر سے بھرا ہوگا؟ شاید جواب نفی میں ہو لیکن بقول مولوی صاحب کے آپ جتنی ایمانداری سے پالش کرینگے اور جوتوں کو جتنا زیادہ چمکائیں گے آپ کو اس ایمانداری کے عوض جنت ملے گی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہ یہ سارے چمکیلے رنگ برنگے جوتے میرے نامہء اعمال میں شمار ہونگے؟ اگر جواب ہاں ہے تو عین ممکن ہے کہ قیامت کے دن میرے ترازو کا پلڑا نیکی کے بجائے جوتوں سے بھرا ہوا ہو، کیونکہ میں موچی ہوں اور میری قسمت میں پالش کرنا اور جوتوں کو چمکانا، رنگ برنگے تسمے لگانا لکھا ہے۔ بقول مولوی صاحب کے کہ تقدیر اٹل ہے کوئی تقدیر کو بدل نہیں سکتا۔ تو کیا میرے نیک جوتوں کو بھی اسی پلڑے میں ڈالا دیا جائیگا، جس میں دیگر تمام لوگوں کے شفاف نفیس بیش قیمت نماز، روزہ حج، زکوٰۃ، جہاد جیسے قیمتی اعمال کو تولا جائے گا؟اگر جواب اثبات میں ہے، تو میں یہ کسی بھی قیمت نہیں ہونے دونگا، چاہے اس کیلئے مجھے جہنم کا ایندھن بننا کیوں نہ پڑے کیونکہ میں جانتا ہوں: کہ یہ لوگ اپنے اعمال کیلئے کتنی تکلیفوں سے گزرے ہیں، کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں۔ میں ان کے اعمال کی ناقدری نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ناقدری کتنی بڑی تکلیف ہے۔ جہاں آپ کا وجود ایک چلتی ہوئی مشین کے علاوہ لوگوں کیلئے کسی کام نہیں ہوتا ہے، جہاں آپ کسی بھی شمار میں نہیں ہوتے، جہاں آپ اگر موچی ہو تو ہمیشہ ایک موچی ہی رہتے ہو، گویا کہ یہ آپ کی پیشانی پہ کنندہ کوئی مہر ہے جسے کوئی مٹا نہیں سکتا۔ آپ بھلے ہی تقوے کی آخری سیڑھی پہ براجمان کیوں نہ ہوں پھر بھی آپ ایک موچی ہی رہینگے۔ میں نہیں چاہتا کوئی اس کرب سے گزرے جسکی سختی سے میں بخوبی واقف ہوں، کیونکہ میں موچی ہوں۔ میں یہ جانتا ہوں یہ شناخت میری روح جیسی ہے، یہ کسی بھی جنم میں بدل نہیں سکتا۔
دنیا خواب کی وادیوں میں تیر رہی تھی، جیسے ایک فاحشہ جسم فروش کے بطن میں کوئی نومولود نطفہ ننھی منی انگڑائیاں لے کر اپنی آمد کی اطلاع دیتا ہے۔ شاید اسے یہ پتہ نہیں ہوتا ہے کہ اس کی آمد سے پہلے پہلے سے وہ دنیا میں (حرامی) جیسی کسی نام سے موسوم ہے، شاید اسے بھی اس کی تقدیر گردانا جائے گا، بالکل اسی طرح رات کی تاریکی ِمیں مَیں بھی ایک نومولود بچے کی طرح اپنا وجود ٹٹول کر دیکھ رہا تھا، لوگ خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے، کچھ ہلکے پھلکے کچھ بڑے جاندار خراٹوں سے اپنے سونے سے مطلع کررہے تھے، میں جانتا تھا کہ جب جیب میں ابھار ہو تو کتنی میٹھی نیند آتی ہے۔ جیسے بانہوں میں دبکی سکڑی شرمیلی دوشیزاؤں کی جسم کے ابھار سے ایک نا مانوس مگر میٹھی خوشبو پھیلتی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں سیر شکم کھانا کھاتا تھا تو مجھے کتنی اچھی نیند آتی تھی۔ اس کے برعکس کتنے ڈراؤنے خواب مجھے ستاتے تھے، اب صبحِ کاذب کا وقت قریب تھا اور عین ممکن تھا کہ پڑوس کا ضعیف بوڑھا جو کہ سالوں سے کم خوابی کا شکار تھا اٹھ کر تہجد کیلئے مسجد کی کھڑکی نہ کھڑ کائے، جو بڑھاپے میں شیر کی طرح اپنی بزرگی میں ضرب المثل تھے۔ (جاری ہے)