زخم آج بھی تازہ ہیں

انجینئر بخت سید یوسف زئی
(engr.bakht@gmail.com)
(بریڈفورڈ، انگلینڈ)
16 دسمبر 2014 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ اور دل دہلا دینے والا دن ہے جس نے پوری قوم کو ایک لمحے میں سوگوار کر دیا۔ یہ دن محض ایک المناک واقعہ نہیں بلکہ ایک ایسا قومی سانحہ ہے جس نے ہماری اجتماعی سوچ، احساس اور ترجیحات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والا یہ حملہ دراصل پاکستان کے مستقبل، اس کے تعلیمی نظام اور اس کے امن پسند تشخص پر براہِ راست حملہ تھا، جس کے اثرات آج بھی قومی شعور میں گہرے نقوش کی صورت موجود ہیں۔
اس ہولناک حملے میں 132 معصوم طلبہ سمیت مجموعی طور پر 147 افراد شہید ہوئے، جن میں اساتذہ اور اسکول کا عملہ بھی شامل تھا۔ یہ وہ بچے تھے جو زندگی کی شروعات ہی کر رہے تھے، جن کے خواب ابھی پروان چڑھ رہے تھے، جن کے والدین نے انہیں بڑے ارمانوں کے ساتھ اسکول بھیجا تھا۔ چند لمحوں میں ان معصوم جانوں کا چراغ گل کر دیا گیا اور انسانیت ایک بار پھر شرمندہ ہوگئی۔
اس دن پورا ملک جیسے ساکت ہو گیا تھا۔ گلیاں سنسان، بازار خاموش اور فضا بوجھل ہو گئی۔ ہر طرف ایک ہی غم کی کیفیت تھی، ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل زخمی تھا۔ یہ سانحہ صرف پشاور تک محدود نہیں رہا بلکہ کراچی سے خیبر تک ہر پاکستانی کے دل میں اتر گیا۔
وہ مناظر آج بھی ذہنوں میں تازہ ہیں جب والدین اپنے بچوں کی شناخت کے لیے اسپتالوں کے چکر لگا رہے تھے۔ کسی ماں کو اپنے بیٹے کا بستہ ملا، کسی باپ کو اپنے بچے کے جوتے۔ یہ وہ لمحے تھے جنہوں نے صبر، حوصلے اور انسانیت کی تمام حدیں آزما دیں اور ہر ذی شعور انسان کو رُلا دیا۔
آرمی پبلک اسکول کے شہداء محض چند خاندانوں کا نقصان نہیں تھے بلکہ وہ پوری پاکستانی قوم کے بچے تھے۔ ان کی شہادت نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ دہشت گردی کسی ایک ادارے یا طبقے کو نہیں نشانہ بناتی بلکہ پورے معاشرے کو لہو لہان کر دیتی ہے اور نسلوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتی ہے۔
گیارہ سال گزر جانے کے باوجود اس سانحے کی تکلیف آج بھی تازہ ہے۔ وقت نے بظاہر فاصلے تو بڑھا دیے ہیں مگر دلوں میں موجود درد آج بھی وہی ہے۔ ہر سال 16 دسمبر آتے ہی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور وہی مناظر، وہی چیخیں اور وہی خاموشی ایک بار پھر ذہنوں میں زندہ ہو جاتی ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ دہشت گردی کا مقصد صرف جانیں لینا نہیں ہوتا بلکہ قوموں کے حوصلے پست کرنا، ان کے اعتماد کو توڑنا اور انہیں خوف کے سائے میں جینے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔ مگر پاکستانی قوم نے اس اندوہناک دن یہ ثابت کیا کہ وہ دکھ میں ڈوب تو سکتی ہے مگر ٹوٹ نہیں سکتی۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد جس قومی یکجہتی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ سیاسی، لسانی اور علاقائی اختلافات پسِ پشت ڈال کر پوری قوم ایک نکتے پر متحد نظر آئی کہ دہشت گردی کے خلاف کوئی نرمی اور کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
یہ دن ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ امن کی حفاظت صرف ریاست یا اداروں کی ذمے داری نہیں بلکہ ہر شہری کا فرض ہے۔ جب معاشرہ مجموعی طور پر خاموشی اختیار کرلیتا ہے تو ظلم مزید طاقتور ہوجاتا ہے، اس لیے بیداری، شعور اور اجتماعی ذمے داری بے حد ضروری ہے۔
شہداء کے لواحقین آج بھی اپنے دُکھ کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے لیے وقت جیسے وہیں رُک گیا ہو۔ ان کی مسکراہٹوں کے پیچھے چھپا ہوا درد آج بھی ان کی آنکھوں سے جھلکتا ہے اور یہ دُکھ صرف ان کا نہیں بلکہ پوری قوم کا مشترکہ دکھ ہے۔
ریاست اور متعلقہ اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ ان خاندانوں کے زخموں پر محض رسمی ہمدردی کے مرہم نہ رکھیں بلکہ ایسا مضبوط اور مؤثر نظام قائم کریں جو مستقبل میں کسی اور ماں کی گود اجڑنے سے بچا سکے۔ انصاف، تحفظ اور پائیدار امن ہی حقیقی خراجِ عقیدت ہے۔
تعلیمی ادارے کسی بھی قوم کی بنیاد ہوتے ہیں۔ ان پر حملہ دراصل علم، شعور اور ترقی کے عمل کو روکنے کی کوشش ہوتی ہے۔ دہشت گرد یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اسکولوں کو نشانہ بناکر وہ قوم کو خوف زدہ کردیں گے مگر وہ یہ بھول گئے کہ علم کو بندوق سے شکست نہیں دی جاسکتی۔
آج بھی بچے اسکول جاتے ہیں، بستے کندھوں پر ڈالتے ہیں اور آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب سجاتے ہیں۔ یہ منظر اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دہشت گرد اپنے مقصد میں ناکام رہے اور پاکستان نے زندگی، تعلیم اور امید کا راستہ نہیں چھوڑا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوجی کارروائیوں سے نہیں جیتی جاسکتی بلکہ اس کے لیے فکری اصلاح، انصاف، برداشت اور معیاری تعلیم کو فروغ دینا بھی ناگزیر ہے۔ جب تک انتہاپسندی کی جڑوں کو ختم نہیں کیا جائے گا، امن مکمل اور دیرپا نہیں ہوسکتا۔
یہ سانحہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ قومی سلامتی کا تصور صرف سرحدوں، ہتھیاروں یا دفاعی حکمتِ عملی تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ ہر اسکول، ہر تعلیمی ادارہ، ہر بچہ اور ہر شہری اس کا بنیادی حصہ ہے، کیونکہ محفوظ معاشرہ ہی ایک مضبوط قوم کی اصل بنیاد ہوتا ہے۔
آرمی پبلک اسکول کے شہداء نے اپنے خون سے ہمیں جھنجھوڑا، ہماری غفلتوں کو بے نقاب کیا اور ہمیں یہ احساس دلایا کہ آزادی، امن اور تحفظ کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ ان معصوم بچوں کی قربانی نے ہمیں بیدار کیا اور یہ سبق دیا کہ اگر قومیں بروقت ہوشیار نہ ہوں تو قیمت بہت بھاری ادا کرنی پڑتی ہے۔
یہ ذمے داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں نفرت، تشدد اور انتہا پسندی کے خلاف صرف بات نہ کریں بلکہ عملی طور پر آواز بلند کریں۔ ہمیں اپنی سوچ، اپنے رویّوں اور اپنی ترجیحات کو درست کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں ایک محفوظ اور پُرامن ماحول میں پروان چڑھ سکیں۔
شہداء کے لواحقین آج بھی ایک نہ ختم ہونے والے صبر کے امتحان سے گزر رہے ہیں۔ ان کے لیے زندگی دو حصوں میں بٹ چکی ہے، ایک سانحے سے پہلے اور ایک اس کے بعد اور ان کا یہ دکھ پوری قوم کی اجتماعی ذمے داری ہے۔
ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بندوق کے ساتھ ساتھ شعور، انصاف اور مساوات کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ جب تک معاشرے میں ناانصافی، محرومی اور فکری گمراہی موجود رہے گی، مکمل امن ایک خواب ہی رہے گا۔
آرمی پبلک اسکول کے شہداء ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کے نام، ان کی مسکراہٹیں اور ان کے ادھورے خواب ہمیں ہر لمحہ یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ قومیں قربانیوں سے ہی زندہ رہتی ہیں اور تاریخ انہیں ہی یاد رکھتی ہے جو ظلم کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔
16 دسمبر محض ایک غمگین یاد نہیں بلکہ ایک قومی عہد اور اجتماعی وعدہ ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستانی قوم نے اپنے معصوم بچوں کے خون کے سامنے سر جھکاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا کہ دہشت گردی، نفرت اور بربریت کے سامنے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے جائیں گے۔ یہ تاریخ ہمیں اس بات کا احساس دلاتی رہے گی کہ اپنے مستقبل، اپنی نسلوں اور اپنے تعلیمی اداروں کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے، اور جب تک قوم متحد، بیدار اور پُرعزم رہے گی، کوئی بھی دشمن ہمارے امن، حوصلے اور ہمارے بچوں کے خوابوں کو پامال نہیں کرسکے گا۔