اسلام کا سیاست سے ربط اور علماء کو اس سے دُور رکھنے کی پالیسی

معاویہ یاسین نفیس

سیاست دین کا حصہ ہے اور سیاست دین کے تناظر میں معاشرے کی ضرورت بنتی ہے اور اس کی مشکلات کو حل کرتی ہے۔ اگر دین کو سیاست سے جدا کردیا جائے تو اس کی مثال ایسے درخت کی سی ہے جو سوکھ کر اپنی رونق و تازگی کھوچکا ہو۔ سیاست کا دین کے بغیر تصور استعماری سازشوں میں سے ایک سازش ہے۔ استعمار کئی برس کے تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کے مفادات کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ الٰہی آئین اور اس کے اجتماعی قوانین ہیں۔ استعمار کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ وہ سیاست کو دین سے جدا رکھے، تاکہ اپنے مقاصد و عزائم حاصل کرسکے۔
عالم اسلام میں بادشاہی سلسلہِ حکومت اور استعمار کے انحرافی افکار کی ترویج نے دین کو سیاست سے جدا کرکے پیش کیا، تاکہ استعمار اسلامی ممالک پر اپنا تسلط جماسکے اور ان ممالک پر حکمرانی کرسکے۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام دین اور سیاست دونوں کے حامل تھے اور خود بھی سیاسی امور میں شریک اور عامل رہے۔اسلام اس معاملے میں خصوصی امتیاز رکھتا ہے، اس کی ابتدائی منزل ہی سیاست سے شروع ہوتی ہے اور اس کی تعلیم مسلمانوں کی دینی اور سیاسی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی اور کفیل ہے۔
قرآن پاک میں جنگ و صلح کے قوانین و اَحکام موجود ہیں، کتبِ احادیث و فقہ میں عبادات و معاملات کے پہلو بہ پہلو مستقل ابواب موجود ہیں۔
سیاست نظم و نسق سے مزین معاشرے میں مدد دیتی ہے، اس سے فتنہ و فساد کی روک تھام ہوتی ہے۔ اس طرح سیاست دین کی ترویج و اشاعت کا باعث بھی بن جاتی ہے، کیونکہ قرآن حکیم کی نظر میں سیاست کا مقصد نیکی، انصاف اور قانون الٰہی کا قیام ہے اور دین اسلام نیکی کو پھیلانے، انصاف کرنے اور اللہ تعالیٰ کے قوانین کو نافذ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ملک میں عدل و مساوات قائم کرنے کے لیے قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے۔
(ترجمہ): یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) نازل فرمایا، تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔
یہ آیت انبیا کی بعثت کا اصل مقصد واضح کرنے کے علاوہ سیاست کے چند اصول اور معیارات بتاتی ہے، جن سے سیاست کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔
تمام پیغمبر عدل و مساوات قائم کرنے کے ذمے دار ہیں اور یہ کام معاشرے کی باگ ڈور سنبھالے بغیر ممکن نہیں، لہٰذا ملک و ملت کی تدبیر اور سیاست کی ذمے داری ایک اہم فرض ہے اور عدل و مساوات قائم کرنے کے لیے سیاست ضروری ہے۔
آج کل ایک گمراہ کن غلطی عام طور پر ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے کہ علماء اسلام کو ملکی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے، بلکہ مساجد میں بھی صرف نماز، روزہ، حج، عبادات و اخلاقیات ہی کی بات کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ملکی معاملات پر گفتگو کرنا اور عام لوگوں کے سیاسی مسائل میں دلچسپی لینا علماء کے لیے غیر ضروری بلکہ نامناسب ہے۔ یہ غلط فہمی سامراج اور اس کے آلۂ کاروں نے اتنے منظم طریقہ سے پھیلائی ہے کہ آج سامراجی نظام اس غلط فہمی کے سہارے مساجد و مدارس دینیہ میں سیاست کے ذرائع کو مسدود کرنے کے لیے مسٹر اور مُلا کی تفریق کا سہارا لے کر قوم کو دو طبقات میں منقسم کررہا ہے، حالانکہ علماء اسلام کا سیاست میں حصہ لینا ان کے ملی و دینی فریضے کے ساتھ ان کے اپنے اسلاف و اکابر کی شاندار روایات کا اہم حصہ اور ان کا ورثہ بھی ہے، جس سے علماء اسلام کسی صورت روگردانی نہیں کرسکتے۔
برصغیر کے علماء دین نے خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت مجدد الفؒ ثانی، اور حضرت ملا جیونؒ کی طرح حکمرانوں کی اصلاح کے فرائض سرانجام دیے ہیں۔ حضرت امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور شاہ عبدالعزیز دہلویؒ کی طرح فکر و نظر کے میدان میں سیاسی راہنمائی کی ہے۔ حضرت محی الدین اورنگزیب عالمگیرؒ، حضرت امیر المومنین سید احمد شہیدؒ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ نے نظامِ حکومت کو ہاتھ میں لے کر اسلامی قوانین و اصلاحات کے نفاذ کی جدوجہد کی ہیں۔
آج ماہرین سیاست، ارباب اقتدار بڑے شدومد کے ساتھ کہتے ہیں کہ سیاست کا مذہب سے کوئی جوڑ نہیں، دونوں کو الگ الگ رکھنے میں ہی بھلائی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور سیاست کے درمیان بڑا ہی گہرا تعلق اور ربط ہے، جہاں اسلام کی حیثیت ایک گلزار کی ہے تو وہیں سیاست کی حیثیت مرغزار کی ہے، اسلام اگر دریا ہے تو سیاست اس کی موج، اسلام اگر شجر ہے تو سیاست اس پر بکھرنے والی شبنم۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام اور سیاست دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور اس کے لیے علماء کا سیاسی میدان میں اترنا ناگزیر ہے۔
آج ہم نے علماء کو مسجد و مدرسہ کی چہار دیواری تک محدود رکھا ہوا ہے، باقاعدہ مساجد، مدارس میں سیاسی تحرکات پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مساجد تمام امور معاشرتی کے مراکز ہوتے، فیصلہ سازی، مشاورت، امور حکومت کے اعمال نبی علیہ السلام کے دور میں مسجد سے ہوا کرتے تھے۔مساجد مسلمانوں کی خاطر تمام تر معاملات کے لیے مرکز کی اہمیت رکھتی تھیں۔ ہاں البتہ تجارت، دنیاوی معاملات مسجد میں ممنوع تھے، لیکن بدقسمتی سے آج ہمارے یہاں مساجد کے اردگرد مسجد کے زیرانتظام چلنے والے تجارتی مراکز تو ضرور موجود ہیں، لیکن نظام زندگی کے بہتر فیصلوں کا استحقاق مساجد سے سلب کرلیا گیا ہے، جو ایک المیہ ہے۔
ضروری ہے کہ نظام زندگی کے ہر وہ پہلو جس کی نظیر آپ علیہ السلام کے طرز حیات سے ملتی ہے، اسے دوبارہ بحال کیا جائے۔ مساجد کو اسلامی مراکز اور علمائے کرام کو سیاسی میدان میں برابر سطح پر موقع فراہم کیا جائے، تاکہ ہمارے یہاں کی سیاست جس کی پہچان بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ، سامراجی فکر سے منسوب ہوکر رہ گئی ہے، وہ ایک بار پھر نئے اسلوب کے ساتھ اپنی شناخت دیانت، خدمت سے تعبیر کرسکے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔