تعلیم کے ساتھ تربیت بھی
کرونا وائرس کے دُنیا میں قدم رکھتے ہی علم کی جلتی شمع بُجھ سی گئی، وبا کی روک تھام کی خاطر دُنیا بھر کے ممالک میں تعلیم سمیت تمام شعبوں کو بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا، گو ترقی یافتہ دُنیا میں آن لائن تعلیم کے ذریعے اس سلسلے کو رواں رکھنے کی کوششیں کسی حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوئیں، تاہم وطن عزیز میں یہ سلسلہ اتنا کارگر ثابت نہ ہوسکا، دوسری جانب کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے بڑی بڑی معیشتیں اوندھے منہ آگریں، وطن عزیز میں بھی ابتداً 2 ماہ کا مکمل لاک ڈاؤن رہا، اس کے بعد اسمارٹ اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اختیار کرکے معیشت کے پہیے کو چلانے کی سبیل کی گئی، تاہم تعلیمی اداروں کی بندش رہی، وبا کے باعث علم کی شمع بُجھے رہنے سے ملک کے کروڑوں طلبہ و طالبات کے مستقبل کو بے پناہ زک پہنچی، جس کی تلافی میں کئی سال لگیں گے۔ افسوس کرونا وبا اور اس دوران تعلیمی اداروں کی بندش کے سب سے زیادہ بداثرات طلبہ و طالبات پر پڑتے دِکھائی دے رہے ہیں، جو تھوڑی بہت تمیز و تہذیب اُن میں تھی، وہ بھی اب رخصت ہوتی نظر آتی ہے۔ تسلیم کہ تمام طلبہ و طالبات کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں، تاہم اکثر کا حال ایسا ہوچکا ہے۔ علم سے رغبت میں بھی بے پناہ کمی آچکی ہے، اُن میں اخلاقیات اور دیگر تھوڑی بہت اچھی اقدار کو بھی زک پہنچی ہے، یہ اوامر تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ انسانوں کے بنائے نظام اگر بگاڑ سے دوچار ہوجائیں تو ان کو ٹھیک کرنے کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں، محض باتوں سے مسائل حل نہیں ہوتے، خرابیوں کو عملی کوششوں کے ذریعے سُدھارنا پڑتا ہے۔ کرونا وبا اور اس کے نظام پر بداثرات سے قطع نظر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں پہلے سے ہی قاعدے قوانین کے پاسداران کا فقدان ہے۔ سماج بے ربط اور الجھا ہوا نظر آتا ہے کہ جس میں پُرتشدد رویوں کا بڑھتا رجحان، عدم برداشت، نظم و ضبط میں بگاڑ، باہمی عزت و احترام کے جذبوں کا فقدان، معاشرتی و اخلاقی اقدار و روایات کا خاتمہ، بڑوں سے بداخلاقی یہ سب معاشرتی خرافات پہلے سے کہیں زیادہ گمبھیر صورت اختیار کرچکی ہیں۔ افسوس یہ سلسلہ صدیوں تک درست ہوتا دکھائی نہیں دیتا، کیوں کہ ہم میں اس تفکر کو اپنا شعار بنانے والے عنقا ہیں، جو ہمیں جہالت سے نکال کر کامیابی کی منزل پر لے جائیں اور ہم بھی مہذب اور اصول پسند معاشرہ کہلوانے کے حق دار بن سکیں۔
علم وہ راہ ہے، جو مہذب معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کی اہمیت و افادیت سے ہرگز انکار ممکن نہیں، لہٰذا معیاری یا غیر معیاری تعلیم کی الجھنوں میں پڑے بغیر اعدادو شمار کے ذریعے بتایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں کتنے کروڑ افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، ان میں کتنے ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلا ہیں اور کتنے غیر تعلیم یافتہ ہیں مگر افسوس ہم قطعاً یہ نہیں بتاسکتے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے فیصد لوگ مہذب اور اصول پسند ہیں جو اخلاقیات کی پاسداری کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ مہنگی ترین گاڑیوں سے دوران سفر کچرا وغیرہ یوں سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں کہ انہیں علم کے ذریعے تمیز نام کو بھی نہ مل سکی۔ اُن سمیت معاشرے کے اکثر افراد ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہیں کہ انہیں تعلیم کے ذریعے تہذیب اور اصول و قوانین کی پاسداری ایسا درس نہ مل سکا۔ آج کے نوجوان بزرگوں کی عزت تک کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ احترام کا رشتہ پامال ہوچکا ہے۔ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے، افسوس اس پر توجہ دینے کی کبھی بھی زحمت گوارا نہیں کی گئی، یوں جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مرض ٹھیک ہونے کے بجائے مزید بگڑا اور ناسور کی شکل اختیار کرگیا۔
افسوس تعلیم ہمارے اکثر افرادِ معاشرہ کو اخلاقیات، انسانیت کی قدر، معاشرے میں باہمی عزت و احترام سے رہنے کے گُر سکھا نہ سکی۔ اس میں شک نہیں کہ تربیت اور عمل کے بغیر تعلیم ایسے ہی ہے کہ جیسے ریت سے بنا کچا گھروندا۔ سب کا تمام تر فوکس تعلیم پر رہا، تربیت کو طاق نسیاں میں رکھ چھوڑا گیا۔ اس دگرگوں صورت حال میں ازحد ضروری ہے کہ تربیت کے معاملے میں چھوٹے بچوں پر توجہ دی جائے، اچھے خطوط پر ان کی تربیت آج کے دور میں ہونے والی خرافات کو مدنظر رکھ کر ہونی چاہیے۔ پانچ سال تک کے بچوں کی گھروں میں بہترین اوصاف پر مشتمل تربیت کی جائے، تاکہ وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کرسکیں، تبھی امید کی جاسکتی ہے کہ ہماری یہ نسلیں مہذب، اصول پسند اور باشعور معاشرہ کہلاسکیں گی۔ اپنا کل ٹھیک کرنے کے لیے آج کو درست کرنا پڑے گا۔ ہمارا کل ہمارے بچّے ہیں کہ جنہیں درست سمت پر گامزن کرنا ہماری اولین ذمے داری ہونی چاہیے، لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس کے لیے سنجیدہ کاوشیں کریں اور ایسا معاشرہ بنانے کی کوشش کریں جو اچھائی اور برائی پر یکساں سوچ رکھتا ہو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بغیر کسی تاخیر اور لیت و لعل کے پانچ سال کے بچوں پر تربیت کے حوالے سے خصوصی توجہ دی جائے۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہیں، جو اس ضمن میں ممد و معاون ہوسکتا ہے۔ معاشرتی اقدار، طور طریقے، رہن سہن، ادب و احترام، نظم و ضبط، حسن اخلاق پر مبنی تربیت ہی کے ذریعے مہذب معاشرے تشکیل پاتے ہیں اور اس کے لیے تربیتی مراکز بھی قائم کیے جاسکتے ہیں، جہاں سے بچّہ بہترین تربیت حاصل کرکے جب اسکول میں داخل ہو تو نظم و ضبط کا مظاہرہ کرے، لیکن معاشرتی بگاڑ میں درستی کا سب سے صائب حل گھر میں والدین کی بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ میں ہی مضمر ہے۔ گھر کے بزرگ اور والدین جس جانفشانی اور محنت سے بچوں کی تربیت کرسکتے ہیں وہ دوسرا کوئی نہیں کرسکتا۔ والدین یاد رکھیں کہ تربیت کے معاملے میں اب کوتاہی کی چنداں گنجائش نہیں وگرنہ اگلے وقتوں میں اس کے سنگین نتائج سے خود کو محفوظ نہیں رکھ پائیں گے۔