سرد جنگ؛ کہانی چار ڈاکٹرائنز کی (ہنری ٹرومین(

امریکا نے سوویت یونین کو کیسے شکست دی؟ خصوصی فیچر

فرخند یوسفزئی

 

فرخند یوسفزئی

سرد جنگ میں امریکہ نے سویت یونین کو کیسے شکست دی؟ اس دیو قامت حریف کو ہرانے کے لئے اسے کن کن راستوں سے گزرنا پڑا اور کیا طریقے اختیار کرنے پڑے؟ یہ ساری کہانی پوشیدہ ہے امریکہ کے چار ڈاکٹرائنز (نظریوں) میں۔ اس سیریز میں ہم انہی ڈاکٹرائنز کا ذکر کریں گے اور قارئین کو امریکی خارجہ پالیسی کی تاریخ بتانے کی کوشش کریں گے۔ زیر نظر مضمون میں ٹرومین ڈاکٹرائن کا جائزہ لیا گیا ہے:

انیسویں صدی تک امریکہ ایک کمزور جمہوریہ تھا، جس پر اس وقت کی سپر پاور برطانیہ کا غلبہ تھا۔ اس وقت تک امریکہ اپنے دفاع کے لئے فوجی طاقت سے زیادہ اپنے جغرافیے پر انحصارکر رہاتھا جو دنیا سے دور الگ تھلگ واقع تھا اور جس تک جنگی جہازوں اور سازوسامان کا پہنچنا بہت مشکل ہوتا تھا۔ لیکن وقت کو کون روک سکا ہے، وقت بدلتا ہے اور قوموں کے عروج و زوال کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔ امریکہ بھی اپنے مسائل پر قابو پاتا رہا اور دھیرے دھیرے ایک بڑی اقتصادی قوت میں تبدیل ہوگیا اور پھر1823 کا سال آیا جب دنیا نے اس کا نیا چہرہ دیکھنا شروع کردیا۔

جب یورپی طاقت اپنی حدوں کو چھورہی تھی تو اسی سال کے آخری مہینے میں امریکی صدر جیمز منرو نے اعلان کردیا کہ اب مغربی نصف کرّے میں صرف اس کی اجارہ داری چلے گی۔ انھوں نے برملا کہا، ”آج کے بعد یورپی طاقتیں نئی دنیا کی آزاد اقوام کو غلام بنانے کے بارے میں نہیں سوچیں گی۔ امریکہ اس خطے میں ان طاقتوں کی جانب سے اپنا نظام نافذ کرنے کی کسی بھی کوشش کو اپنے امن اور سلامتی کے لئے خطرہ تصور کرے گا۔“

اس طرح اس نے ببانگ دہل اس خطے کو اپنا حلقہ اثر قرار دیا اور دیگر طاقتوں کو یہاں سے دور رہنے کی وارننگ دے دی۔ امریکہ کی اس نئی پالیسی کو منرو ڈاکٹرائن کا نام دیا گیا اوریہ مستقبل کی امریکی خارجہ پالیسی میں اس طرح کی کئی اور ڈاکٹرائنز کے لئے بنیاد بنی جس پر چل کر امریکہ بالآخر ایک واحد سپرپاور میں ڈھل گیا۔ اس وقت منرو ڈاکٹرائن کے لئے سب سے بڑا خطرہ برطانیہ تھا جس کی نظریں ٹیکساس، کیوبا اور وینزویلا پر تھیں اور اس کے حصول کے لئے اس کی امریکہ سے متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ تاہم 19ویں صدی کے اختتام تک برطانیہ کی یہاں دلچسپی کم ہوگئی اور تیل اور بحری راستوں کی تلاش اسے خلیج فارس اور مشرقی بحیرہ روم لے گئی۔

ٹرومین ڈاکٹرائن:

1945میں جب دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا اور جرمنی اور اس کے اتحادیوں کو شکست ہوئی تو فاتح ممالک کے درمیان دنیا پر اجارہ داری کی دوڑ شروع ہوگئی۔ جنگ عظیم کے دو اہم اتحادی اور سپر پاورز امریکہ اور سویت یونین ایک دوسرے کے مخالف بن گئے اور اس طرح ایک سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ دراصل دونوں ممالک کے درمیان قدرتی ذخائر سے مالامال اور تزویراتی طور پر اہم خطوں میں اثرورسوخ کی کشمکش جنگ عظیم کے آخری برسوں میں ہی شروع ہوگئی تھی لیکن جنگ کے بعد اسے سرمایہ دارانہ نظام (کیپٹل ازم) اور اشتراکیت (کمیونزم) کے نظریوں کی جنگ کا نام دے دیا گیا۔

1940کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں امریکی صدر روزویلٹ کو یقین تھا کہ وقت کی سپر پاور برطانیہ مشرق وسطی میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھے گا اورامریکہ اس کے ساتھ مل کرسویت یونین کو تیل اور قدرتی ذخائر سے مالامال خطے سے دور رکھ سکے گا، چنانچہ امریکہ اور برطانیہ اس خطے میں پارٹنر بن گئے۔ مارچ 1942میں روزویلٹ نے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کو لکھا، ”بحر ہند، خلیج فارس، بحیراحمر، لیبیا اور بحیرہ روم برطانیہ کی ذمہ داری میں ہوں گے۔“ امریکہ یہاں برطانیہ کو سپورٹ کرنے لگا اور اپنی توجہ دیگر علاقوں پر مرکوز کردی۔ اس وقت ہٹلر کے جرمنی نے برطانیہ کے لئے اس خطے میں بڑی مشکلات پیدا کر رکھی تھیں اور اسے اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے میں مشکل کا سامنا تھا۔ جنگ کے بعد جب جرمنی اور جاپان کی طاقتیں منہدم ہوگئیں اور برطانیہ کا فاتح رہنے کے باوجود دیوالیہ نکل گیا توسویت یونین نے تیزی سے اسے پیچھے دھکیلنا شروع کردیا۔امریکی انتظامیہ بڑی تشویش سے دیکھ رہی تھی کہ سویت یونین نے جنگ کے دوران جو فوج ایران بھیجی تھی اسے جنگ کے بعد واپس بلانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے، جبکہ دوسری جانب وہ ترکی پر سفارتی دباو بڑھارہا ہے کہ وہ اس کی فوج کو بحر اسود اور بحیرروم کو ملانے والی ڈارڈینلز کی تنگ آبناوں تک رسائی دے دے۔ سویت یونین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور دباو کے سامنے برطانیہ نے گھٹنے ٹیکنا شروع کردیے اور اسے احساس ہونے لگا کہ خطے پر اجارہ داری کی پالیسی میں اس کی امریکہ کا سینیئر پارٹنر ہونے کی حیثیت کمزور ہورہی ہے۔ امریکہ پریشان تھا کہ سویت یونین ایران اور ترکی میں رکنے والا نہیں ہے اور وہ یہاں سے آگے بڑھ کر یونان، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ پر قبضہ جمانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

1946کے موسم خزاں میں یونان میں خونریز خانہ جنگی پھوٹ پڑی جس میں کمیونسٹوں کی سربراہی میں گوریلوں نے برطانیہ کی حمایت یافتہ حکومت سے لڑنا شروع کردیا۔ امریکی پالیسی ساز جانتے تھے کہ یونان کے سیاسی بحران کی وجوہات زیادہ تر اندرونی ہیں اور اس میں سویت یونین کا بڑا کردار نہیں ہے لیکن انھیں ڈر تھا کہ اگر کمیونسٹ فاتح رہے تو ان کی کی فتح کو عالمی طور پر سویت یونین کی فتح سمجھا جائے گا۔ ایتھنز میں اقوام متحدہ کی مبصر ٹیم کے امریکی نمائندے مارک ایتھرج نے امریکی انتظامیہ کو تار بھیجا اور کہا کہ سویت یونین سمجھتا ہے کہ یونان ایک پکا پھل ہے جو چند ہی ہفتوں میں اس کی جھولی میں آگرے گا۔ انڈرسیکرٹری آف اسٹیٹ ڈین ایچی سن نے بھی کہا کہ امریکہ اور برطانیہ کی ناکافی مدد کی وجہ سے یونان کے سویت یونین کے ہاتھوں میں جانے سے پورے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے، لیکن اس وقت برطانیہ نے امریکی صدر ہیری ٹرومین کو آگاہ کردیا کہ اس کی مالی حالت اس قابل نہیں ہے کہ وہ یونان کے بحران میں کوئی مثبت کردار ادا کرسکے۔

صدر ٹرومین نے صورتحال پر غور کرنے کے لئے سرکردہ کانگریس رہنماؤں کو وائٹ ہاوس مدعو کیا اور انھیں بتایا کہ ترکی کے آبناوں، ایران اور یونان میں سویت دباؤ کی وجہ سے بالکان خطہ ایک ایسے موڑ پر آپہنچا ہے کہ سویت یونین کی کسی بھی کامیابی کی صورت میں وہ تین براعظموں میں داخل ہوسکتا ہے۔ 12مارچ کو ٹرومین نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے 18منٹ پر محیط خطاب میں ’ٹرومین ڈاکٹرائن‘ کا اعلان کردیا اورکہا، ”یہ امریکی قومی سلامتی کی ضرورت ہے کہ وہ سویت یونین کے گرد حصار باندھے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ ان تمام جمہوری اقوام کو سیاسی، فوجی اور اقتصادی تعاون فراہم کرے گا جو بیرونی یا اندرونی آمرانہ طاقتوں کی زد میں ہیں۔“ یہ ڈاکٹرائن ہی سویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے باضابطہ آغاز کا اعلان تھا۔

اسی اجلاس میں کانگریس نے یونان اور ترکی میں کمیونزم مخالف فورسز کی امداد کے لئے 400 ملین ڈالر کے فوجی اور اقتصادی پیکیج کی منظوری دے دی۔ ٹرومین انتظامیہ نے جون میں جنگ عظیم سے تباہ حال یورپ کی بحالی کے لئے اربوں ڈالر امداد کے منصوبے مارشل پلان کا اعلان کیا اورجولائی میں قومی سلامتی کونسل اور سی آئی اے تشکیل دی گئی اور اس طرح سویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے مہرے تشکیل پاگئے۔ برطانیہ کی تباہ حال معیشت اور کم ہوتے اثرورسوخ کی وجہ سے امریکی انتظامیہ نے برطانوی پالیسی سازوں کو پینٹاگون بلا کرفیصلہ کیا کہ ترکی اور یونان کے معاملات وہ خود دیکھے گا، جبکہ برطانیہ خلیج فارس کے تیل کے میدان اور سوئز کینال کی ”دیکھ بال“ کرے۔

لیکن1949میں ایسے تین بڑے واقعات پیش آئے جس نے امریکہ کی پریشانی میں اضافہ کردیا۔ اگست میں سوویت یونین نے ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کیا، ستمبر میں امریکی معیشت اچانک بحران کا شکار ہوگئی اور اکتوبر میں چین میں ماؤزے تنگ کی کمیونسٹ پارٹی چیانگ کائی شیک کوخانہ جنگی میں شکست دے کر اقتدار میں آگئی۔ امریکہ کو خوف محسوس ہوا کہ ان پے درپے واقعات کی وجہ سے سرد جنگ میں سویت یونین کا پلڑا اچانک بھاری ہوگیا ہے اور اسے اسے قابو میں رکھنے کی امریکی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔

اور پھر شدید سوچ وبچار کے بعد پینٹاگون نے ٹرومین ڈاکٹرائن میں پیش کی گئی سویت یونین کو گھیرنے کی پالیسی کو عالمی شکل دینے کے لئے امریکی دفاعی بجٹ میں چار گنا اضافہ کرنے کی تجویز پیش کی۔ سرد جنگ جیتنے کے لئے تھرمو نیوکلئیر ہتھیاروں کی برق رفتار تیاری، کمیونزم کے خلاف ملک کے اندر اور باہر نفسیاتی جنگ اور نیٹو کی طرز پر سوویت مخالف علاقائی اتحادوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔

اس وقت امریکہ کے لئے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ تزویراتی اور اقتصادی طور پر اہم عرب ممالک کوسوویت یونین کے خلاف کیسے مضبوط بنائے، جس سے مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہونے اور اسرائیل کی سیکیورٹی کے لئے خطرات پیدا ہونے سے بچا جائے۔ اس کے لئے ایک طرف برطانیہ نے مصر کے ساتھ ہونے والے ایک فوجی شراکت داری معاہدے کے تحت اسے ہتھیاروں کی فراہمی کا منصوبہ پیش کیا تو دوسری طرف خطے میں طاقت کے عدم توازن پیدا ہونے کے نتیجے میں عرب ممالک کو اسرائیل پر حملہ آور ہونے سے روکنے کے لئے امریکہ نے برطانیہ کے ساتھ مل کر خطے میں ہتھیاروں کی آمد کا عمل سخت کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ٹرومین نے اس عمل میں اپنے ایک اور اتحادی فرانس کو بھی شامل کردیا اور اس طرح تینوں بڑی طاقتوں نے مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی فراہمی کے اصول برقرار رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔

جلد ہی کوریا جنگ چھڑگئی، جس میں سویت حمایت یافتہ شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر اچانک حملہ کیا اور امریکہ کو احساس ہونے لگا کہ سویت یونین کی طاقت اور اثرورسوخ اس سے کہیں بڑھ کر ہے جتنا وہ سمجھتا ہے، جبکہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ مخالف جذبات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اسی لئے ٹرومین نے کہنا شروع کردیا کہ سویت یونین کو روکنے کے لئے اس سے کئی گنا بڑھ کر کام کرنا ہوگا جو وہ اب تک کرتے آئے ہیں۔ موقع دیکھ کر برطانوی سفیر سر اولیور فرینکس اور فیلڈ مارشل ولیم جے سلم یہ کہہ کر آگے بڑھے کہ ”جس کا بھی مشرق وسطیٰ پر کنٹرول ہو، اس کی تین براعظموں تک رسائی ہوتی ہے۔“ انھوں نے امریکہ سے کہا کہ سویت یونین کو روکنے کے لئے برطانیہ اور امریکہ کے اتحاد میں مصر کو بھی ایک جونئیر پارٹنر بنایا جائے، مگر امریکی آرمی چیف جنرل لاٹن کولنز کی توجہ کوریا کی جنگ اور یورپ کے دیگر تنازعات پر تھی، اسی لئے انھوں نے یہ کہہ کر برطانوی امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ ”جنگ کی صورت میں مشرق وسطیٰ برطانیہ کی ذمہ داری ہے۔“

برطانیہ نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور 1951 کے اوائل میں امریکی حکام سے ایک اور ملاقات میں نیٹو کی طرز پر مشرق وسطی کمانڈ (ایم ای سی) قائم کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔ تجویز پیش کی گئی کہ ایم ای سی کا اندرونی دائرہ مصر اور عرب ممالک پر مشتمل ہوگا، جس کی سربراہی برطانوی سپریم کمانڈر کریں گے، جبکہ اس کا بیرونی دائر ہ روس کے جنوب میں واقع ممالک (یونان سے لے کر ایران تک) پر مشتمل ہوگا۔ صدر ٹرومین کو یہ تجویز پسند آگئی اوراس کمانڈ کا قیام عمل میں لایا گیا، لیکن اکتوبر میں مصر اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ سویت یونین کے بارے میں امریکی اور برطانوی خدشات جھوٹے ہیں اورعرب آزادی کوا صل خطرہ برطانوی سامراجیت سے لاحق ہے، یہی خیال دیگر عرب ممالک کا بھی تھا۔

اس طرح دسمبر میں مصر نے اس تنظیم کا بائیکاٹ کرکے اسے دفنا دیا اور برطانیہ بھی ہمت ہار گیا اور اس نے اپنی تیزی سے گرتی معیشت کی وجہ سے نہرسوئز میں تعینات اپنی فوج واپس بلالی۔ امریکہ کا یہ احساس پختہ ہوگیا کہ برطانیہ اب سپر پاور نہیں رہا اور وہ مالی مشکلات کے باعث دنیا میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کا اہل نہیں ہے اور 19ویں صدی کی طرح اس کے ساتھ مل کر خطے میں مغربی مفادات کا تحفظ کرنا ناممکن ہے۔ ٹرومین نے فیصلہ کرلیا کہ مشرق وسطی میں اب مغربی مفادات کا تحفظ امریکہ کرے گا اور اس نے بوڑھے سپر پاور برطانیہ کو گاڑی کی پچھلی نشست پر دھکیل دیا۔ (جاری ہے)

 

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔