معاشرتی حرام خوری

ياور عباس

ہم آج پيسے کے ليے کيے جانے والے گناہوں کا ذکر کریں گے اورکوشش کریں گے کہ لوگ اس سے باز آجائيں۔ اسي تناظر ميں مجھے آج تاجدارِ کائنات امام النبيا حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ملی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ:

"وہ گوشت جنت میں نہ جاسکے گا جس کی نشونما حرام مال سے ہوئی ہو، وہ دوزخ کا زیادہ مستحق ہے۔”

اگر حديث کا پيغام ديکھيں اور اپنے آس پاس نظر دوڑائيں تو يقينا افسوس ہوگا کے ہمارا معاشرہ کيسے حرام خوري کو قبول کر بيٹھا ہے۔ بجلي چوري، ۔ڈکيتي، سود خوري، رشوت خوري، بھتہ خوري کي تو بات ہي نہيں ہورہي ہے جو صاف ظاہر ہے ہر کسي کے ليے حرام کام ہے۔ بے شک جو شخص يہ کام کرتا بھي ہے يقينا وہ بھي اسے حرام جان کر ہي کرتا ہوگا ليکن ميں جو بات سمجھانا چاہ رہا ہوں وہ ہمارے ليے لمحہ فکريہ ہے۔

سبزي والا، فروٹ والا، مکينک، رکشہ ڈرائيور، اے سي کا کاريگر، چکي والا، بيکري والا، دودھ والا، ۔چپس والا، پوليس والا، قصائي، بيوپاري، ڈاکٹرز، صحافي، وکلا، ٹرانسپوٹرز، پکوان والے۔۔۔ غرض کس کس کا نام لوں۔ يہ وہ لوگ ہيں جوبظاہر محنت کرکے کمارہے ہيں۔ چوروں ڈکيتوں کي نسبت لوگ انھيں بہت عزت ديتے ہيں۔ ليکن جب يہي سبزي والا تازہ ٹماٹردکھا کر گلے ہوئے ٹماٹر درميان ميں ڈال دے، کپڑے والا جھوٹ بول کر مال بيچ دے، ايجنٹ صرف کميشن کيليے جھوٹي گواہي دے کرگاڑي بکوادے، بيوپاري جھوٹ بول کر بيمارجانور بيچ دے، چکي والا مرچوں سے لے کر بيسن تک ميں ملاوٹ کردے، مکينک پانچ سو کا کام جھوٹ بول کر پانچ ہزار کا بنادے۔۔۔ تو پھر ان کي کمائي کيسے حلال ہوئي؟

ملک ميں ہر برائي کا الزام سسٹم پر اور سياست دانوں پر ڈال ديا جاتا ہے۔ کيا پکوان والے کو پرانے تيل ميں کھانا پکا کرکھلانے کے لیے عمران خان کہتا ہے؟ کيا ڈاکٹرز کو ايک مخصوص کمپني کي دوائيں لکھنے کو نواز شريف کہتا ہے؟ کيا بيکري والے کو باسي بچا ہوا مال تازہ مال ميں ملاکر بيچنے کو زرداري کہتا ہے؟ يہ سب گناہ ہم خود کرتے ہيں صرف ايک چيز کي لالچ ميں، اور وہ ہے پيسہ۔ صرف چند روپوں کيليے دنيا کي لالچ ہم سے حرام خوري کروارہي ہے۔ کيا ايسے لوگوں کے بچے جو کھائيں گے وہ حرام سے نشونما نہيں ہوگي؟ پھر ان کے ليے جنت کي دعا کا کيا کوئي فائدہ ہے؟ جب ہم خود ہي انھيں جہنم ميں ليجانے کا انتظام کررہے ہيں۔

ميں ہر گھر ميں موجود ماں، بھائي، باپ اور جو بھي میری تحریر پڑھ رہے ہیں آپ سے درخواست کرتا ہوں اپنے پياروں سے اس وقت سوال ضرور کريں۔ جب بيٹا اپني کمائي سے زيادہ خرچ کررہا ہو توماں سوال ضرور کرے کہ يہ مال کہاں سے آيا؟ یہ حلال ہے يا حرام؟ بيوي شوہر سے ضرور پوچھے کہ اگر وہ روز کے دو ہزار کماتا ہے تو اچانک چند دنوں ميں پيسے بڑھ کيسے جاتے ہيں؟ اگر آج بيٹي باپ سے پوچھ لے گي کہ بابا آپ کے ساتھ کام کرنے والے تو بائک پر آتے ہيں آپ کے پاس مہنگي گاڑي کيسے آئي؟ تو يقين کريں آپ اپنے پياروں کو قيامت ميں رسوا ہونے سے بچاليں گے۔۔ ورنہ پھر آپ چاہے حاجي بنیں يا نمازي۔۔۔ کيا آپ کي عبادت قبول ہوگي؟

رسول کريم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا، "حرام کھانے والے کی عبادت و نماز قبول نہیں ہوتی۔” ايک اور حديث ميں بيان فرمايا، "حرام مال کا کوئی صدقہ قبول نہيں۔” ايک اور حديث ميں فرمايا، "تجارت میں جھوٹ بولنے والے اور عیب چھپانے والے کے کاروبارسے برکت مٹادی جاتی ہےؕ” ايسي ہستي کے ماننے والے آج تجارت ميں جھوٹ بولنے کو ہي کاريگري سمجھتے ہيں، ٹيکنيک سمجھتے ہيں۔ کامياب کاروباري ہي اسے سمجھا جاتا ہے جو خراب مال زيادہ پيسوں ميں بيچ کر دکھائے۔

آپ بھي ميرے ساتھ مل کر آج عہد کريں کہ جھوٹ بول کر کچھ نہيں بيچيں گے۔ کيا ہوگا پانچ دس روپے کم کماليں گے۔ رزق ميں برکت ہوگي تووہ کمي کمي نہيں لگے گي۔ عہد کريں ملاوٹ نہيں کريں گے۔ کم بيچيں مگر اچھي چيز بيچيں ورنہ يہ پيسہ اسپتالوں ميں آفتوں ميں نکل ہي جاتا ہے۔ اس کا کوئي فائدہ نہيں۔ عہد کريں بجلي چوري نہيں کرينگے يقينا وہ مہنگي ہے تو اسکا استعمال کم کرينگے۔ عہد کريں مال کو روک کر اسکے مہنگے ہونے کا انتظار نہيں کرينگے۔ کم پيسوں ميں ليا ہوا مال اللہ کے بندوں کو کم منافع پر بيچيں گے، ورنہ ہمارے اور قيامت کے درميان ايک سانس کا ہي فرق ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔