آئی ایم ایف پروگرام کیلئے 5 پیشگی اقدامات مکمل کرنے ہوں گے، شوکت ترین
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کے مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پاکستان کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس سے قبل 5 ’پیشگی اقدامات‘ مکمل کرنے ہوں گے۔
کارپوریٹ فلنتھراپی سروے کے اجرا کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف عملے کے ساتھ تمام معاملات حل ہوگئے ہیں جس کی بنیاد پر انہوں نے ہمیں ’پیشگی مکمل کرنے والے اقدامات‘ کی ایک فہرست مکمل کرنے کو دی ہے تا کہ وہ پاکستان کے حوالے سے بورڈ اجلاس بلا سکیں۔
رپورٹ کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ مجھ سے تاریخ نہیں پوچھیں لیکن آئی ایم ایف ڈیل ہوچکی ہے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ان پیشگی اقدامات میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ترمیمی) بل، ٹیکس استثنیٰ ختم کرنا اور توانائی کے نرخوں میں اضافہ کرنا شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ سے متعلق کارروائی کو فی یونٹ 1.39 روپے کے حالیہ اضافے کے ساتھ پہلے ہی پورا کیا جا چکا ہے جبکہ ٹیکس چھوٹ ختم کرنے اور اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے کے بل تیار کر لیے گئے ہیں اور ٹیرف میں آئندہ اضافہ فروری سے مارچ 2022 تک ہو گا۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ دونوں فریقین نے بات چیت مکمل کرنے کے بعد دونوں بلوں کو وزارت قانون و انصاف کے ذریعے حتمی شکل دینے کے لیے ٹھیک کیا جا رہا ہے۔
جب یہ نشاندہی کی گئی کہ آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس طے شدہ شیڈول کے مطابق 17 دسمبر کو ہو کر فروری تک ملتوی ہوسکتا ہے تو انہوں نے وضاحت کی کہ آئی ایم ایف بورڈ کو کسی بھی وقت بلایا جا سکتا ہے بشرطیکہ پیشگی کارروائیاں مکمل ہوں۔
ذرائع نے بتایا کہ شوکت ترین نے گردشی قرضوں میں ملوث پبلک سیکٹر اداروں سے بھی کہا تھا کہ وہ اپنے کھاتوں پر وصولیوں کی بنیاد پر منافع کا اعلان کریں، حکومت اپنا منافع کا حصہ ادائیگیاں کرنے میں لگادے گی۔
اس سے گردشی قرضوں میں 2 کھرب روپے تک کی کمی آئے گی اور اداروں کی بیلنس شیٹ کلیئر ہوگی جس کی بنیاد پر حکومت بین الاقوامی مارکیٹ میں گلوبل ڈپازٹری رسیدوں (جی ڈی آرز) میں اضافہ کرے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ شوکت ترین، آئی ایم ایف کے عملے کو ایس بی پی ترمیمی بل میں نمایاں تبدیلی کے لیے قائل کرنے میں کامیاب رہے جس کا سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے رواں سال مارچ میں 50 کروڑ ڈالر کی قسط سے قبل آئی ایم ایف سے وعدہ کیا تھا۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پیٹرولیم لیوی کی کلیکشن بہتر کرنے کے علاوہ ایک کھرب 70 ارب روپے کے ٹیکس استثنٰی کی وصولی چاہتا ہے جس کے لیے حکومت نے رواں سال 6 کھرب 10 ارب روپے اک ہدف مقرر کیا تھا لیکن ابتدائی 4 ماہ میں محض 50 ارب روپے جمع کر پائی۔
اس سلسلے میں بچت کی رعایت ریونیو کی وصولی تھی جو ہدف سے نمایاں طور پر زیادہ تھی۔
اسٹیٹ بینک سے درکار پیشگی اقدامات سے متعلق سوال کے جواب میں شوکت ترین نے کہا کہ مانیٹری پالیسی اور ایکسچینج ریٹ ایس بی پی اور مانیٹری پالیسی کمیٹی کا دائرہ کار ہے اور وہ اس میں مداخلت کرنا یا تبصرہ کرنا نہیں چاہتے۔
ایک سوال کے جواب میں شوکت ترین نے کہا کہ کروڑوں روپے مالیت کے وفاقی اور صوبائی حکومت کے اداروں کے متعدد اکاؤنٹس کی خزانے کے ایک ہی اکاؤنٹ میں منتقلی بھی آئی ایم ایف پروگرام کی شرط تھی، یہ پیشگی کیا جانے والا اقدام نہیں اور اس پر آہستہ آہستہ عمل کیا جائے گا۔
اب یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ اس وقت اقتصادی امور کی سربراہی کرنے والوں نے اسٹیٹ بینک کے قانون کو آگے بڑھایا تھا جسے اب آئین کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔