سانحۂ اے پی ایس، لفظ بھی گریہ کرتے ہیں!
محمد راحیل وارثی
سانحہ اے پی ایس پر لکھتے ہوئے راقم کے ساتھ لفظ بھی روتے ہیں۔ وہ پھول جو ابھی پوری طرح کِھلے اور نہ مہکے تھے۔ وہ پھول جو ابھی بہار کے منتظر تھے اور جن کا پنپنا باقی تھا۔ وہ معصوم پھول آج سے 6 برس قبل بزدل دُشمن کی درندگی اور وحشت کا شکار ہوئے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور میں جو ظلم ہوا، اُس کی مذمت کے لیے الفاظ ہیں نہ اس سفاکیت کی کوئی نظیر ملتی ہے۔ 16 دسمبر 2014 نہ صرف پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن ہے بلکہ پوری انسانیت کے قتلِ عام کا دن ہے کہ جس روز درندہ صفت بھیڑیوں نے معصوم پھولوں اور ننھے فرشتوں کو سفاکی اور بے دردی سے شہید کیا اور اپنی بزدلی اور شیطانیت کی وہ مثال رقم کی کہ جس پر شیطانیت بھی نالاں ہے۔ 132 معصوم بچوں کا قتلِ ساتوں آسمانوں کی مخلوقات کا قتل ہے اور ایسے درندوں کے لیے معافی یا رحم کی کوئی گنجائش نہیں۔ دُنیا کا ہر مذہب انسانیت کا درس دیتا ہے۔ کسی انسان میں اگر ذرہ برابر بھی انسانیت موجود ہو تو وہ کسی بھی نہتے، معصوم، بے گناہ شخص بالخصوص نابالغ بچوں پر اپنی بہادری نہیں جِتاسکتا، لیکن اس سانحے میں تو انسانیت کی دھجیاں اُڑائی گئیں اور بے دردی اور سفاکی سے ننھے، معصوم پھول ایسے بچوں کو شہید کیا گیا تو یقیناً ایسے درندوں کو کسی بھی مذہب کا پیروکار نہیں کہا جاسکتا بلکہ اُنہیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔
پامالی گُل سے کہیں دب سکتی ہے خوشبو
روندے ہوئے پھُولوں کی مہک اور بڑھے گی
اِس عظیم سانحے نے کتنے ہی والدین کے خوابوں کو چکنا چُور کردیا۔ یہ بچے یونیفارم پہن کر گھر سے نکلے اور خُون آلود کفن میں واپس آئے۔ اِس سانحے نے پوری دُنیا کو ہِلاکر رکھ دیا اور ہر پاکستانی کو وہ دُکھ دیا، جس کا اظہار ممکن نہیں۔ اُن ماؤں کے دُکھ کو کوئی کیسے بیان کرسکتا ہے، جنہوں نے اپنے لختِ جگر کو حصول علم کے لیے گھر سے اسکول بھیجا، مگر واپسی پر اُن کو اپنے بچوں کی خون میں لَت پَت لاشیں ملیں۔ اِن بچوں کا کیا قصور تھا۔ اِن کو دہشت گردوں نے کِس جرم کی سزا دی۔ دہشت گردی کے کتنے رُوپ ہم نے دیکھے۔ کتنے کتنے بڑے ظلم یہاں ہوئے، یہاں ہزاروں بے قصوروں کا خون بہایا گیا، سیکڑوں خودکُش دھماکے ہوئے، بے شمار بم دھماکے کیے گئے، مگر جس ظلم کو ہم نے آرمی پبلک اسکول پشاور میں دیکھا، وُہ ظلم کی انتہا تھی۔ کوئی اِتنا سنگ دل کیسے ہوسکتا ہے کہ اسکول کے بچوں کو چُن چُن کر گولیوں سے چھلنی کردے۔ ایک ایک بچے کو کئی کئی گولیاں ماری گئیں۔ بچوں کو اس طرح مرتے دیکھ کر چیختی اسکول پرنسپل کو اُن ظالموں نے آگ لگادی۔
دہشت گردوں نے بے گناہ اور معصوم طالب علموں پر حملہ کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وُہ کسی رعایت یا رحم کے مستحق نہیں ہیں۔ اِس دردناک واقعے نے پاکستانی قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا اور پوری قوم نے متحد ہوکر دہشت گردی کے ناسُور کو جڑ سے ختم کرنے کا عندیہ دیا اور افواج پاکستان نے مختلف آپریشنوں ”ضربِ عضب“ اور ”ردُالفساد“ کے ذریعے لاتعداد دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔ کئی گرفتار ہوئے۔الحمدللہ یہ آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور آج وطن عزیز میں امن و امان کی صورت حال خاصی بہتر قرار دی جاسکتی ہے۔
جب تک ہمارے دُشمن زندہ ہیں، ہم چین سے نہیں بیٹھ سکتے۔ ہمارے دُشمن وُہ لوگ ہیں، جو ہمارے کچے ذہنوں کو نفرت کی آگ میں جھونک رہے ہیں، جو ہمارے درمیان رہتے ہوئے بھی ہمارے نہیں، جو اِس ماں کی کوکھ کو اُجاڑنا چاہتے ہیں، جس نے ہمیں جنم دیا ہے۔ ہمیں خود کو ثابت قدم رکھنا ہوگا۔ عسکری، نفسیاتی طورپر اور سوچ کے لحاظ سے پیچھے نہیں ہٹنا ہوگا تاکہ ہماری آنے والی نسلیں نفرت کی گولیوں کا نشانہ نہ بنیں۔
کہتے ہیں کہ کسی بھی قوم کو اُس وقت تک عزت نصیب نہیں ہوتی، جب تک اُس کی ایک نسل اپنی آنے والی نسلوں کے لیے خود کو قربان نہیں کرتی۔ ہمیں نفرت کو مِٹا کر محبت کی دُنیا بسانی ہے۔ مجھے فخر ہے اپنے لہو پر، مجھے فخر ہے اِس چمن کے پھولوں پر جو شہید ہو کر ہمارے درمیان ہیں۔ ایک ناقابلِ تسخیر پاکستان کی صورت اور ہم آنے والی نسلوں کو فخر سے بتا سکتے ہیں کہ یہ وطن اِن پھول جیسے شہید بچوں کے بغیر نامکمل ہے اور ان کا ہی دیا ہوا لہو، سب کے جسموں میں دوڑ رہا ہے۔ قوم ان معصوم شہیدوں کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کرتی رہے گی۔