اسلام کی نظر میں عورت کا مقام

معاویہ یاسین نفیس

اسلام نے عورت کو بحیثیت انسان وہ تمام معاشرتی ، اخلاقی ، روایتی ، تعلیمی حقوق عطا کئے ہیں جو بنی نوع کی بنیادی ضرورت ہیں۔ جس طرح دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹوں کی سیج پر پرونے کی کوشش کی ہے، اس کے برعکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے۔

ایک عور ت ماں، بیوی، بہن، بیٹی ہر روپ اور ہر رشتے میں عزت ، وقار اور وفاداری کا پیکر ہے۔ خواتین کا احترام دراصل نوعِ انسانی کے احترام کے مترادف ہے۔ اسلام نے جدید ترقی یافتہ نظام کی بنیاد رکھی، جہاں حقوق کو غصب کرنا ، ظلم و جبر ، طاقت کے بے جا استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا۔ بیٹیوں کی ولادت کو باعثِ شرم سمجھنا جیسے دیگر اطوار کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ انسان تو انسان بلکہ ہر جاندار کے حقوق کا احترام سکھایا ہے۔ عورت کو ایسا باعزت مقام عطا کیا ہے جو رہتی دنیا تک مشعل ِ راہ ہے۔ جنس عورت کا جو حال عرب میں تھا وہی پوری دنیا میں تھا۔ عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کو زندہ دفن  کردیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تہدید کی او راسے زندہ رہنے کا حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا قیامت کے دن خدا کو اس کاجواب دینا ہوگا۔

سورۃ التکویرمیں ارشاد ربانی ہے، ’’وإذا الموٴدةُ سُئِلَتْ․ بأیِ ذنبٍ قُتِلَت۔‘‘

ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیاگیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا۔

ایک طرف اس  معصوم صنف کے ساتھ کی گئی ظلم وزیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو دوسری طرف ان لوگوں کوجنت کی بشارت دی گئی ہے جن کا دامن اس ظلم سے پاک ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی ہو، وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے، اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔

اسلام میں عورتوں کی آزادی کا حق بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ مرد کو حاصل ہے، خواہ وہ دینی معاملہ ہو یا دنیاوی، اس کو پورا حق ہے کہ وہ دینی حدود میں رہ کر ایک مرد کی طرح اپنی رائے آزادانہ استعمال کرے۔

ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عمہ نے فرمایا، ”تم لوگوں کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ عورتوں کا حق مہر زیادہ نہ رکھو۔ اگر مہرزیادہ رکھنا دنیا کے اعتبار سے بڑائی اور عنداللہ تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق ہوتے (ترمذی)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں، حالانکہ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَآتَیْْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْْئاً

ترجمہ:اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیر سامان تو اس میں سے کچھ نہ لو۔

جب خدا نے اجازت دی ہے کہ شوہر حق مہر میں ایک قنطار بھی دے سکتا ہے تو آپ  اس کو منع کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا”کُلُّکُمْ أعْلَمُ مِنْ عُمَر "تم سب عمر سے  زیادہ علم والے ہو۔ اس عورت کی آزادی اظہار راۓ پر مراد پغمبر، خلیفہ وقت حضرت عمر کی طرف سے کوئی قدغن نہیں لگایا گیا۔

چادر اور چار دیواری ، غیرت و حمیت کے نام پر ہمارے معاشرہ کا ایک قلیل طبقہ عورت کو وہ مقام دینے سے گریزاں رہتاہے جس کی اجازت خود ہمارے مذہب اسلام نے عطا کی ہے۔ بدقسمتی سے معاشرہ کے وہ افراد جو چادر و چار دیواری کے نام پر عورت کے ساتھ غیر انسانی و غیر اخلاقی سلوک روا رکھتے ہیں وہ ظاہری طور پر مذہب کا لبادہ اوڑھے رکھتے ہیں مگر باطنی طور پر شیطانی صفت کے حامل ہوتے ہیں۔

 

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔