پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کو درپیش مسائل

ماہم ارشد

اسلام میں عورت کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اب ایسا کم ہی دیکھائی دیتا ہے جہاں عورت کو اکیلا دیکھا جاتا ہے وہاں عورت ذات پر ہمدردی کی نظر ڈالنے کے بجائے اسے گندی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسے کمزور سمجھ کر اس کو گندی نظروں سے خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ آج بھی کتنی خواتین ہیں جو اپنے گھر والوں کا سہارا بن کر صبح سویرے نوکری کو جاتی ہیں اور ان کو آنے اور جانے میں کس قدر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اکیلی عورت کے لئے اس معاشرے میں آنا جانا آسان نہیں ہے، بس ہو یا چین چی، رکشہ ہو یا گاڑی اکیلی عورت تو محفوظ ہی نہیں ہے بس میں کنڈکٹر ہو یا پچھے بیٹھے مرد ہر کسی کی گندی نگاہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور  بس کنڈکٹر کی بدتمیزی ، جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مردوں کا خواتین کے کمپارٹمنٹ میں آنا غیر مناسب اور قابل توجہ ہے۔

عورت ذات کو عزت دینے کے بجائے عورت ذات کی تذلیل کی جاتی ہے۔ آتے جاتے عورت ذات پر عجیب و غریب الفاظ سے آوازیں کَسی جاتی ہیں۔ آج کی عورت کے لئے اپنے گھر والوں کے لئے باہر نکل کر کمانا آسان نہیں رہا۔ اس میں صرف وہ عورتیں شامل نہیں جو کمانے باہر نکلتی ہیں ، بلکہ اس میں وہ طلبات بھی  شامل ہیں جو اپنے اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز جاتیں ہیں۔

ان کو بھی اسی قسم کے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ان مسائل سے اسی حد تک بچا جاسکتا ہے، جب خواتین کی ٹرانسپورٹ میں مرد نہ ہوں۔ ایک علیحدہ ٹرانسپورٹ ہونی چاہیئے جس میں صرف خواتین ہوں اس طرح آج کی عورتوں کو جو مسائل درپیش ہیں ان سے کافی حد تک چھٹکارا مل سکے گا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔