پی ٹی آئی، بڑی کامیاب حکمراں جماعت
آج سے پچیس سال پہلے ایک کرکٹر نے جب اس ملک میں کرپشن، ناانصافی، ظلم و زیادتی، لوٹ مار، اقرباء پروری، اداروں کی تباہی، حکمرانوں کی بے حسی اور عوام کی زبوں حالی کو دیکھا تو اس نے فیصلہ کیا وہ سیاست میں حصہ لے گا اور اپنے ملک و قوم کی بہتری کے لیے کوشش کرے گا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جس کا نام پاکستان تحریک انصاف رکھا۔
اس کرکٹر کا خواب تھا کہ ملک کو مدینہ کی ریاست کی طرز پر ایک فلاحی ریاست بنائے جس میں قانون کی حکمرانی ہو اور ہر شہری قانون کی نظر میں برابر ہو، انصاف کا بول بالا ہو اور قوم خوشحال ہو۔ وہ اس بوسیدہ نظام میں تبدیلی لانا چاہتا تھا جس میں روایتی سیاستدان تیری باری میری باری اور مک مکا کی سیاست کر رہے تھے۔ یہ کرکٹر کوئی اور نہیں بلکہ موجودہ وزیراعظم پاکستان عمران خان تھے۔ پاکستان تحریک انصاف نے جب اپنے پہلے الیکشن میں حصہ لیا تو ایک بھی سیٹ حاصل نہ کرسکی لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے ہمت نا ہاری اوربہادری سے جدوجہد جاری رکھی۔ اس کے بعدیہ جماعت اگلے الیکشن میں گئی اور عمران خان صرف اپنی ہی ایک سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوگئے اور اسی طرح یہ سفر شروع ہوا۔ اس سفر کے دوران کئی مشکلات درپیش آئیں۔ آمروں اورمخالفت حکمرانوں کے عتاب کابھی سامنا کیا۔ پچیس سال کی مسلسل انتھک محنت اور جدوجہد کے بعد بالآخر 2018کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
عمران خان نے عوام میں سیاسی بیداری پیداکرنے میں اہم کردار اداکیا۔ انہوں نے عوام کو سیاسی بحث میں حصہ لینا سکھایا۔ اپنی الیکشن مہم میں انہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اورآج بھی اس کے لیے کوشاں ہیں۔ آج گلی کے چائے کے ہوٹل سے لے کر ڈرائنگ روم تک جہاں بھی چند لوگ بیٹھیں تو سیاست پر بحث ضرور ہوتی ہے اور اس کا سہرا وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے۔ حکومت میں آئے تو کئی چیلنجز درپیش تھے۔ لیکن سب مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ انہوں نے ستر سال سے ملک میں جاری لوٹ مار کے خاتمے کے لیے کام کیا تو جس شعبے پر ہاتھ ڈالا وہ منظم ہوجاتا اور ان کے خلاف متحد ہوجاتا۔ پھر چاہے وہ سیاستدان ہوں، بیوروکریسی ہو، میڈیا ہو، کاروباری حضرات ہوں مختصر کہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ جو ملک کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے تھے وہ سب کے سب ان کے خلاف ہوجاتے۔ سیاستدانوں کی لوٹ مار پر ہاتھ ڈالا تو انتقامی کارروائی کا ڈھول پیٹا گیا۔ میڈیا کو احتساب کے دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے میڈیا کی آزادی کا رونا رویا۔
کاروباری طبقے سے سوال کرنا چاہا تو انہوں سرمایہ باہر لے جانے اور فیکٹریاں بند کرنے کی دھمکی دی۔ باہر تو مافیاز کا مقابلہ وہ کر ہی رہے تھے ان کی اپنی ہی حکومت میں ان کے اپنے ہی بیٹھے دائیں بائیں لوگ ناجائز فائدہ اٹھانے لگے۔چونکہ تحریک انصاف واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی تھی اس لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنانی پڑی۔ اتحادیوں نے کئی جگہ ان کو بلیک میل کیا مگر انہوں نے واضح کہہ دیا کہ چاہے وہ اپوزیشن ہو یا اتحادی اگر کسی نے ان کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو وہ اسمبلی توڑنے میں ایک منٹ نہیں سوچیں گے۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے لے کر روالپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل تک عمران خان نے نہ صرف ان تمام لوگوں کے خلاف انکوائری کا حکم دیا بلکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنی ہی حکومت کے لوگوں کے خلاف انکوائری رپورٹس کو عام عوام کے لیے پبلک کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا گیا۔ کئی دفعہ ان کے اپنے قریبی سمجھے جانے والے لوگوں کے نام بھی مبینہ طور سامنے آئے تو انہوں نے ان کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا۔ جب رنگ روڈ اسکینڈل میں زلفی بخاری کا نام لیا گیا تو انہوں نے خود ہی عہدے سے استعفیٰ دے دیا کہ جب تک انکوائری مکمل نہیں ہوجاتی وہ اس عہدے پر نہیں رہیں گے۔ اسی طرح چینی اسکینڈل میں جب جہانگیر ترین کا نام آیا تو ان کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا گیا حالانکہ بعد میں ترین نے اراکین اسمبلی کا ہم خیال گروپ بنا کر ان کو سیاسی طور پر بلیک میل کرنا شروع کر دیا جس میں ان کی حکومت کے جانے کا بھی خطرہ تھا مگر ان کے خلاف کارروائی اب بھی جاری ہے۔ عمران خان ایک مضبوط اعصاب کا مالک ہے اور آج بھی اپنے مشن پر ڈٹ کر کھڑا ہے اور ہمیشہ کھڑارہے گا۔