ہمیں کیسا تعلیمی نظام چاہیے؟
ہمیں کیسا تعلیمی نظام چاہیے ؟ یہ سوال قوموں کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ کیونکہ یہ تعلیمی نظام ہی ہے جو ہمارے مستقبل کے معماروں کی زندگی کا فیصلہ کرتا ہے۔
پاکستان بھی ان بدقسمت ممالک میں ہے جہاں نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ملک و قوم کی امیدوں پر پورا نہیں اترتے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام خامیاں رکھتا ہے جن کا ادارک کیئے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ ایک ماہر تعلیم کے مطابق با معنی تعلیمی نظام میں تین خوبیاں ہونی چاہیں۔۔وہ تعلیم جو بچے کو اس کے اندر چھپے خزانے تلاش کرنے میں مدد دے، ایسی تعلیم جو آپ کو اپنے مقصد حیات سے جوڑ دے اور ایسی تعلیم جو ہمیں نفس پر قابو کرنا سکھا دے، حقیقی تعلیم ہو ا کرتی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام ان تینوں خوبیوں سے عاری نظر آتا ہے جس کے باعث ہمارا تعلیمی
نظام مطلوبہ نتائج حاصل کرنے سے عاری ہے۔۔
ایک دن ایک نوجوان کا ایک شاہراہ سے گزر ہوا تو اس کی ایک فقیر پر نظر پڑی جو کہ ایک ڈبے پر بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا۔ وہ نوجوان اس کے پاس گیا اور کہا کہ میرے پاس تمہیں دینے کیلیے کچھ نہیں۔۔۔ ہاں میں تمہیں خزانے کا پتا بتا سکتا ہوں۔ یہ ڈبہ جس پر تم بیٹھے ہو، اسے کھولو۔ وہ فقیر بولا میں کئی سال سے اس ڈبے پر بیٹھا ہوں اس میں کچھ نہیں۔ لیکن اس نوجوان کے اصرار پر جب ڈبہ کھولا تو اندر سے ہیرے جواہرات نکلے۔ ہمارا ہر بچہ اپنے اندر ایسے ہی بے شمار خزانے رکھتا ہے۔ افسوس یہ ہے کے ہمارا تعلیمی نظام ہمیں اپنے اندر چھپے ہوں خزانے تلاش کر نے میں مدد کرنے سے قاصر ہے۔
تعلیم کا مقصد انسان کو اس کے مقصد حیات سے جوڑنا ہے لیکن یہ خوبی بھی ہمارے نظام تعلیم میں نظر نہیں آتی، حالانکہ حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے مومن کے اسی وصف کے بارے میں فرمایا تھا ؎
ہو تیری خاک کے ہر ذرے سے تعمیر حرم
یعنی کہ انسان خاک سے بنا ہے اور مؤمن کے ہر خاک کے ذرے سے حر م کی تعمیر ممکن ہے، کیونکہ اگر کھانا، پینا اور سو جانا ہی مقصد حیات ہوتا تو اس کے لیے تھوڑی سی عقل ہی کافی تھی۔ اشرف المخلوقات بنانے کے پیچھے یقیناً کوئی راز چھپا ہے جو دریافت کرنا ہے۔
با معنی تعلیم ایک انسان کو نفس کا تزکیہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ نفس کا تزکیہ کرنے سے مراد ہے عمل، سوچ، ارادے، نیت اور خواہشات میں آنے والے کچرے کو باہر نکالنا۔ اسی بارے میں اقبال نے فرمایا تھا ؎
علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ جو شخص زیادہ علم حاصل کر لیتا ہے وہ نفس کے شکنجے میں پھنستا چلا جاتا ہے۔کسی ستم ظریف نے کہا تھا کہ "پاکستان میں تعلیم حاصل کرنا الگ کا م ہے اور علم حاصل کرنا الگ کام۔” مشکل میں گھرے اس معاشرے کا علاج ممکن ہے لیکن اس کے لیے ہمیں تعلیم کو بامقصد بنانا ہو گا۔ اگر اس وقت ہم اپنے تعلیمی نظام کو دیکھیں تو اسکا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ کہیں نصاب کی بنیاد پر تقسیم ہے تو کہیں سرکاری اور پرائیوٹ نظام میں۔۔کہیں ہم زبان کی بنیاد پر تعلیمی نظام کو تقسیم کیے بیٹھے ہیں تو کہیں امتحان کے الگ الگ طریقے کی بنیاد پر۔۔ یوں ہم بامعنی تعلیم سے کو سوں دور نظر آتے ہیں۔
یہ سب مسائل تو اپنی جگہ ہیں لیکن ہم نے چند ایسے عوامل کو مسئلہ بنا رکھا ہے جو درحقیقت مسئلہ ہے ہی نہیں جس میں سے ایک مغربی نظام تعلیم کی تقلید ہے۔ جس کو اقبال نے کچھ اس طرح سے نفی فرمایا
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مُروّت کے خلاف