نسبتِ میم؛ ہر ماں کے سنگ، کمزور نہ سمجھو

اقرأ موسیٰ

 

وہ اپنے ہاتھوں سے تُمہیں گِرا بھی سکتی ہے اور بچا بھی سکتی ہے۔ میری نسبت کو آج تک لوگ سمجھ ہی نہ پاۓ۔ ایک عورت کی صورت میں مجھے صنفِ نازک بھی بولا گیا مجھے زندہ بھی جلایا جاتا تھا۔ میری عزتیں بھی لوٹی گئیں۔ میرے حقوق بھی مجھ سے چھینے گۓ۔ لیکن نہیں۔ دُنیا کی ہر عورت مضبوط ہے۔ کمزور تو صرف سوچ ہوتی ہے عورت نہیں۔ اور یہی عورت جب ایک ماں کی صورت اختیار کرتی ہے تو دُنیا کی ہر ہستی اس کے سامنے خاک ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں چاہے کسی بھی اندھے گونگے یا بہرے سے بھی جاکے پوچھیں گے تو ماں کی ناموس اور ماں کی ہستی کو کوٸ بھی رد نہیں کر سکتا۔

فرانس کے بادشاہ نیپولین سے ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ آپ کے خیال سے وہ کون سی چیز تھی جس کی فرانس کو ہمیشہ سے ضرورت رہی؟ تو نیپولین نے بنا کسی جھجک کے کہا کہ ماں۔

دُنیا کی کسی بھی زباں میں دیکھیں تو چاہے وہ ماں کے لفظ میں ہو یا مما کے۔ امی کے یا ممی کے۔ مدھر کے یا ماما کے لفظ میں ہو سب میں میم آتا ہے۔ کبھی غور کیا کہ سب میں میم ہی کیوں آتا ہے ؟

ماں کی عزت کو کبھی کوٸ ٹھکرا نہیں سکتا۔ پتا ہے کیوں؟ کیونکہ یہ نسبت ہمارے آقا و مولا مُحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میم کی نسبت ہے۔ یہی میم کبھی ماں کو گِرنے نہیں دیتا ہے۔ گرتی ہیں تو یہی میم سنبھال لیتا ہے۔

اسلام وہ واحد دین ہے جس نے عورتوں کو حقوق اور عزت سے نوازا ہے۔ ماں کی ہستی کو بیان کرتے ہوۓ اتنا کہہ دیا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ لیکن آج ہم نے مغربی تہذیب کو اپنے سَروں پر حاوی کرکے ماں کی شان کو عورتوں کے حقوق کو مذاق بنا رکھا ہے۔ اپنی خواہشات اور سکون کیلۓ اپنے ماں اور باپ تک کو کسی نہ کسی شیلٹر ہوم میں چھوڑ آتے ہیں۔

ہوتے ہیں ایسے بدبخت لوگ۔ لیکن بات تو اصل یہ ہے ناں کہ ماں کی شان کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ماں کی نسبت تو بس وہی سمجھ سکتا ہے جس نے میم کی نسبت کو سمجھا ہو۔ ماں کی عظمت ماں کی شان

الفاظ میں بیان تو ہو ہی نہیں سکتی۔ الفاظ جن کو لکھا جاسکتا ہے پڑھا جاسکتا ہے دیکھا جاسکتا ہے۔ مگر ماں کی شان خُداۓ ذوالجلال کی روشنیوں میں سے ایک روشنی جو کہ آسمانوں کی بلندیوں تک سفر کرتی ہے۔ اور اسی روشنی میں سے اپنی اولاد اور اپنے گھر والوں کو روشناس کرواتی ہے۔ اپنے ہر روپ میں موجود کبھی دوست کی صورت میں کبھی بہن کی صورت میں کبھی بھاٸ کی صورت میں اور کبھی باپ تک کی صورت میں۔

مجھے یہ کہنے میں شاید ہی کوٸ جھجک محسوس ہو کہ اسی میم کی بدولت ہی مردوں کو بھی عزت اور حقوق ملے ہیں کہ میم سے ہی مامتا ہے میم سے ہی ماں کا مطلب۔ مرد میں جو میم نہیں تو رد کہلاتا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔