سیاسی جماعتوں کے نظرانداز کارکنان
عمیر مقصودی
پچھلے کئی دنوں سے مشاہدہ کررہا ہوں، الیکشن قریب ہیں اور اس وقت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں ٹکٹ کی تقسیم پر اختلافات اور ناراضیاں بھی عروج پر ہیں۔ ہر ایک کا یہ گمان ہے کہ ٹکٹ کا بالکل بہترین امیدوار وہ خود ہے۔ تین چار مرتبہ ایوان میں رہنے والے لوگ بھی اس بار امیدواروں کی فہرست کا حصہ ہیں، کیونکہ پاکستان میں ہر سیاسی جماعت کا ایک سا ہی حال ہے ہر جگہ عہدے، مرتبے اور مراعات یعنی سب کچھ ہی ایک مخصوس طبقے کے لیے ہے، اس لیے اس دفعہ بھی کچھ نیا نہیں ہوا۔
بہرحال سیاسی جماعتوں میں ٹکٹ کی غیر منصفانہ تقسیم تو اپنی جگہ، جس میں اقربا پروری، ذاتی پسند ناپسند، پیسہ، طاقت اور خوشامد حسب روایت برقرار رہی، لیکن میرا اختلاف تمام سیاسی جماعتوں میں موجود تنظیم و تحریک سے مخلصی کا درس سکھا کر کارکنان کو استعمال کرنے والے امیدواروں سے ہے، جو اس مرتبہ ٹکٹ نہ ملنے پر منظر سے غائب ہوگئے ہیں، سیاسی وفاداری تبدیل کر بیٹھے ہیں یا مخالفت میں الزامات لگاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
کیا تمام درس، وفاداری کے وعدے اور مخلصی کی باتیں عام کارکنان کے لیے ہیں؟ ذاتی مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے کارکنان کو استعمال کرنے والے اپنی خواہشات کی تکمیل نہ ہونے پر خود عَلَم بغاوت بلند کرتے ہوئے راستے بدل لیتے ہیں اور کارکنان کے حصے میں پھر وہی آسرے، وعدے اور دلاسے آتے ہیں۔
وقت بہت تیزی سے بدل رہا ہے اور ان بدلتے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی کارکنان کو بھی ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے مشاہدہ کرنا ہوگا کہ آپ جس راہ نما و جماعت کے وفادار ہیں، کیا وہ جماعت اور راہ نما بھی واقعی آپ سے مخلص اور وفادار ہیں، یا ان کے نزدیک آپ سے زیادہ اہم عہدے، اقتدار اور ذاتی مفادات ہیں؟
کیا کسی سیاسی جماعت نے کارکنان کے لیے قربانیاں دیتے ہوئے اپنے عہدوں، مراعات یا مفادات کا سودا کیا ہے؟
سوچیے گا ضرور!
موجودہ حالات میں پڑھے لکھے نوجوان اقربا پروری، طاقت اور پیسے کی جنگ سے بدظن ہوکرسیاست سے اپنی راہیں جدا کرنے پر مجبور ہیں جو وطن عزیز کے مستقبل کے لیے انتہائی خوف ناک ثابت ہوگا۔