این سی او سی کا یکم اور 2 جنوری کو ویکسینیشن سینٹرز بند رکھنے کا اعلان
ملک کی کل آبادی کے 30 فیصد اور اہل آبادی کے 46 فیصد افراد کو کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگا دی گئی جبکہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے اگلے سال کے پہلے 2 روز ویکسی نیشن مراکز کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
این سی او سی نے اعلان کیا کہ ’ملک بھر میں ویکسی نیشن کے تمام مراکز یکم اور 2 جنوری 2022 یعنی (ہفتہ اور اتوار) کو بند رہیں گے کیونکہ ویکسی نیشن کا عملہ سال 2021 کے لیے قومی اہداف حاصل کرنے میں مصروف رہا، ویکسی نیشن مہم 3 جنوری سے دوبارہ شروع کردی جائے گی‘۔
ایک ٹوئٹ میں این سی او سی کا کہنا تھا کہ ’ملک کی کل آبادی کے 30 فیصد اور اہل آبادی کے 46 فیصد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے‘۔
انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ ’اومیکرون کے بڑھتے ہوئے خطرے کے تناظر میں ویکسین کی مکمل خوراک لگوائیں اور ایس او پیز پر عمل کریں، ماسک پہنیں، ہجوم والی جگہوں پر جانے سے گریز کریں اور سماجی فاصلے کو یقینی بنائیں‘۔
دریں اثنا ملک میں تقریباً گزشتہ دو ماہ کے دوران سب سے زیادہ کیسز اور تقریباً ایک ماہ کے وقفے کے بعد 400 سے زیادہ کیسز ریکارڈ کیے گئے۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 482 کیسز اور 3 اموات رپورٹ ہوئیں۔
اس سے قبل 3 دسمبر کو 400 سے زائد جبکہ 10 نومبر کو 482 سے زیادہ یعنی 637 افراد میں متعدی مرض کی تشخیص ہوئی تھی۔
ایک متعلقہ پیش رفت میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے وفاقی حکومت کی جانب سے دوا سازی میں استعمال ہونے والی خام مصنوعات پر 17 فیصد جی ایس ٹی کی تجویز پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ دوا سازی کے خام مال پر 17 فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنے گا جو پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور ملک کے غریب لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے اور یہاں تک کہ ہمارے معاشرے کا متوسط طبقہ بھی بوجھ محسوس کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے اس اقدام سے غریبوں کے لیے اپنے خاندان کے بیمار افراد کا علاج کروانا مشکل ہو جائے گا، ہم اس تجویز کی شدید مخالفت کرتے ہیں، بدقسمتی سے موجودہ حکومت اپنے دور میں پہلے ہی 11 مرتبہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کر چکی ہے۔
پی ایم اے نے مزید کہا کہ ’ایسے حالات میں جب سرکاری ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات کی کمی ہے، ادویات کی قیمتوں میں یہ اضافہ عوام کی مشکلات میں اضافہ کرے گا‘۔
پی ایم اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ ایسوسی ایشن گزشتہ کئی سالوں سے صحت کے بجٹ میں مجموعی ملکی پیداوار کے مطابق 6 فیصد تک اضافے کا مطالبہ کر رہی ہے تاکہ شہری اپنی بیماریوں کا علاج کروا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے حکومت کو 2022 میں صحت عامہ کی سہولیات مفت کرنے کا مشورہ دیا، تاکہ کوئی بھی بغیر علاج کے انتقال نہ کرے‘۔
میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق حکومت آئندہ منی بجٹ میں بچوں کے دودھ سمیت کھانے پینے کی اشیا پر 17 فیصد جی ایس ٹی عائد کرے گی۔
یہ اشیائے خورونوش متوازن خوراک کے لیے بہت ضروری ہیں اور ان کی قیمتوں میں اضافے سے نہ صرف بیماریوں کا بوجھ بڑھے گا بلکہ غذائی قلت اور علاج میں رکاوٹوں میں بھی اضافہ ہوگا۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ہم حیران ہیں کہ اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے بچے پہلے ہی غذائی قلت اور علاج کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں، حکومت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے لیے تیار ہے۔
ایسوسی ایشن نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور ادویات کی قیمتوں میں مزید اضافے کو روکنے کے لیے اشیائے خورونوش اور دوا سازی کے خام مال پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی تجویز کو واپس لے تاکہ غریب عوام کی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ غریب پہلے ہی ملک میں مہنگائی اور خراب معاشی حالات کے باعث مشکلات میں مبتلا ہیں۔