ترانہ پاکستان اور اس کی تیاری کے مراحل

اسلم ملک

قومی ترانہ کسی بھی ملک کے لیے انتہائی اہم حیثیت رکھتا ہے۔ قومی ترانے کی تیاری بڑے اہتمام سے کی جاتی ہے۔ اس کے بول غیرمعمولی اور اس کی دھن بھی کمال کا مظہر ہوتی ہے۔ ہمارا قومی ترانہ تیار ہونے میں 7سال لگے اور یہ پہلی بار 13 اگست 1954 کو  ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔

14 جنوری 1948 کو ریڈیو پاکستان والے زیڈ ۔ اے ۔ بخاری نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ سورۃ فاتحہ کو  قومی ترانہ قرار دے دیا جائے۔ انہی دنوں جنوبی افریقہ میں مقیم ایک مسلمان تاجر اے آر غنی نے پیشکش کی کہ وہ پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے اور اس کی دھن بنانے والے کو پانچ پانچ ہزار روپے انعام دیں گے۔ 2جون 1948 کو حکومت پاکستان نے اس پیشکش کو قبول کر لیا۔ 14 جولائی 1949 کو وزیر مواصلات سردار عبدالرب نشتر کی زیرِ صدارت اجلاس میں قومی ترانے کیلئے پیش کی گئی دھنوں اور نظموں کا جائزہ لینے کیلئے دو کمیٹیاں بنائی گئیں۔ اس بات پر اتفاق ہوا کہ نغمہ، زبان، بحر، دھن اور موسیقیت میں مسلم قوم کی روایات کا خیال رکھا جائے۔

21 اگست 1949 کو ترانے کیلئے ممتاز موسیقار احمد  غلام علی چھاگلہ کی تیار کردہ دھن منظور کرلی گئی۔ اسے ریڈیو پاکستان میں بہرام رستم جی نے اپنے پیانو پر بجا کر ریکارڈ کرایا۔ اس کا دورانیہ 80 سیکنڈ تھا اور اسے بجانے میں21  آلات موسیقی/ ساز استعمال  کیے گئے۔ یکم مارچ 1950 کو شاہِ ایران پاکستان آئے تو پہلی بار  سرکاری طور پر پاک بحریہ کے بینڈ نے وارنٹ آفیسرعبدالغفور کی قیادت میں کراچی ائیر پورٹ پر قومی ترانے کی یہ دھن بجائی لیکن پاکستان کی مرکزی کابینہ نے اس دھن کی باقاعدہ منظوری 2 جنوری1954 کو دی۔ اس کے خالق جناب چھاگلہ یہ دن نہ دیکھہ سکے۔ وہ گیارہ ماہ قبل 5 فروری 1953 کو وفات پا چکے تھے۔ ان کی اہلیہ قمر النسأ چھاگلہ اور بیٹے عبدالخالق چھاگلہ نے ترانے کے جملہ حقوق حکومت پاکستان کو دےدیے۔ منظور شدہ دھن پر ترانہ لکھوانے کیلئے اس کے گراموفون ریکارڈ ملک کے تمام اہم شعرأ کو بھجوائے گئے۔ ہر رات ریڈیو پر بھی اسے نشر کیا جاتا رہا تاکہ شاعر اس پر بول لکھ سکیں۔

قومی ترانہ کمیٹی کو کل 723 ترانے موصول ہوئے۔ کمیٹی کو حفیظ جالندھری، حکیم احمد شجاع اور زیڈ اے بخاری کےلکھے ہوئے ترانے سب سے زیادہ پسند آئے۔ زیڈ اے بخاری نے حفیظ صاحب سے کہا کہ دونوں کے بند ملا کر ترانہ بنالیا جائے لیکن حفیظ نے صاف انکار کردیا۔ بالآخر  4اگست 1954 کو مرکزی کابینہ نے حفیظ جالندھری کے ترانے کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کرلیا۔

بیگم خورشید حفیظ کا کہنا ہے کہ حفیظ جالندھری تین ماہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کمرے میں بند رہے۔ کاغذ لکھ لکھ کر پھاڑتے رہے۔ بالآخر پاکستان کا یہ قومی ترانہ وجود میں آیا۔ قومی ترانہ مخمس میں ہے۔ اس میں کل 15 مصرعے ہیں۔ اسے ممتاز گلوکاروں شمیم بانو، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آرأ، نسیم شاہین، احمد رشدی، زوار حسین، اختر عباس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور اختر وصی علی کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ پورا قومی ترانہ بجنے میں ایک منٹ بیس سیکنڈ لگتے ہیں۔ 13 اگست 1954 کوقومی ترانہ پہلی بار ریڈیو پاکستان  سے نشر ہوا۔ 4 اگست 1955 کو حکومت پاکستان نے ترانے کے الفاظ کے حقوق حفیظ جالندھری سے خرید لیے۔

آزاد کشمیر کا ترانہ ’’وطن ہمارا آزاد کشمیر‘‘ بھی ابو الاثر حفیظ جالندھری نے لکھا۔ یاد رہے کہ بھارت نے رابندر ناتھ ٹیگور کا لکھا ہوا ترانہ ’’جن من گن ‘‘ 24 جنوری 1950 کو ہی اختیار کر لیا تھا۔ یہ پہلی بار 27 دسمبر 1911 کو کانگریس کے کلکتہ سیشن میں گایا گیا تھا۔ بنگلہ دیش نے بھی اپنے قیام کے فوراََ بعد1971 میں رابندر ناتھہ ٹیگور ہی کا 1905-1906 کا لکھا ہوا گیت ’’امار شونار بانگلا ‘‘ قومی ترانے کے طور پر اختیار کر لیا تھا۔ سری لنکا کا قومی ترانہ بھی رابندر ناتھہ ٹیگور کی نظم پر مبنی ہے، بلکہ بعض لوگ تو کہتے ہیں یہ ٹیگور نے خود  لکھا۔ اسکی موسیقی بھی ان سے اور ان کے ایک شاگرد آنندا سمراکون سے منسوب کی جاتی ہے۔ یہ ترانہ ایک ہی دھن میں ملک کی دونوں سرکاری زبانوں تامل اور سنہالی میں  ہے۔

بلجئیم ، سوئٹزر لینڈ ، جنوبی افریقہ ، سورینام اور کینیڈا کے قومی ترانے بھی ایک سے زیادہ زبانوں میں ہیں۔ کینیڈا کا ترانہ تو غیر سرکاری طور پر پنجابی سمیت کئی  زبانوں میں گایا جاتا ہے۔ اس پوسٹ کےساتھہ شامل قومی ترانہ اس کے خالق جناب حفیظ جالندھری نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر مجھے عطا کیا تھا۔

مجھے یقین ہے کہ اس پوسٹ پر  وہ گھسا پٹا اعتراض ضرور دہرایا جائے گا کہ قومی ترانہ تو  فارسی میں ہے۔ تو سنیے، قومی ترانے میں یہ الفاظ آتے ہیں:  ذوالجلال، سایہ، خدا، استقبال، جان، حال، شان، ماضی، ترجمان، کمال، ترقی، رہبر، ہلال، ستارہ، پرچم، مراد، منزل، شاد، تابندہ، پائندہ، سلطنت، ملک، قوم، عوام، اخوت، نظام، سرزمین، پاک، قوت، یقین، مرکز، ارض، عالی شان، نشان، تو، کا، حسین، کشور اور قومی نعرے ’’زندہ باد ‘‘ والا باد۔

دیکھیے ان میں سے کون سا لفظ اردو ڈکشنری ( لغات) میں نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اب اردو کے الفاظ ہیں، بلکہ ان میں سے ہر لفظ کے نام والا کوئی اردو اخبار رسالہ بھی نکلتا ہے۔ ترانے میں گرامر صرف "باد” کی حد تک ہے اور یہ ہم قومی نعرے مسلم لیگ زندہ باد، پاکستان زندہ باد میں قیام پاکستان سے برسوں پہلے سے سمجھتے اور قبول کیے ہوئے ہیں۔

یہ درست ہے کہ ’’کا‘ کی جگہ ’’را‘‘ کردیں تو ایرانی اسے فارسی نظم مان لیں گے۔ لیکن یہ حفیظ کا کمالِ فن کیوں نہ سمجھا جائے کہ انہوں نے دونوں زبانوں کا مشترک ذخیرۂ الفاظ ( vocabulary ) استعمال کر کے یہ ترانہ لکھ دیا۔ آخر فارسی (شاید صدیوں) اس خطے میں رائج رہی ہے۔ اقبال اور فیض کے اردو کلام میں سے فارسی کے الفاظ نکال دیں تو کتنے فیصد الفاظ باقی بچیں گے؟

میں نے یہ تحریر اپنی فیس بک وال پر بھی شیئر کی تھی۔ اس پوسٹ کو سیکڑوں لوگوں نے شئیر/ کاپی کیا اور اکثر نے حوالے کے بغیر، حتی’ کہ  کراچی کے امریکی قونصل خانے کے فیس بک پیج پر بھی  حفیظ صاحب کے ہاتھ کا لکھا یہ قومی ترانہ لگایا گیا اور ساتھ لکھا گیا کہ حفیظ صاحب کی  ڈائری میں لکھا ہوا قومی ترانہ، حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ یہ ڈائری نہیں، اس پر تاریخ بھی بہت بعد کی ہے۔ پھر حفیظ صاحب  نے یہ بھی لکھا ہے کہ اسلم ملک کو لکھ کے دیا۔ امریکیوں کو کاپی رائٹس وغیرہ کے احترام کا بہت دعوی’ ہے لیکن انہوں نے نہ صرف بغیر اجازت یہ تحریر استعمال کی بلکہ حقیقت کو مسخ بھی کیا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔