ملکی تعلیمی نظام
اِس میں کوئی دوراۓ نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں نت نئے تجربات سے لیکر ٹیکنالوجی کے ہر میدان میں ترقی ہورہی ہے ۔ تعلیم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہم دنیاوی سطح پر نت نئی دریافتوں کو بغور دیکھ کر کرسکتے ہیں لیکن اِس سے بھی آگے دن بدن جس تیزی سے دنیا ترقی کررہی ہے شاید ہمارے ذہن و گمان تک اِسکی رسائی ممکن نہیں ۔ ایک سپاہی کو جرنیل بنانے میں جسکا کلیدی کردار ہے وہ تعلیم ہی ہے ۔ تعلیم کی بدولت ہی کسی جرنیل کی اہمیت کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے ۔ اِس تمہید کا دارومدار ترقی کے میدان میں دنیا کو روشناس کروانا بشمول اپنے ملک میں تعلیمی سرگرمیوں میں ناکامی کی وجہ کو اِس خالص نیت کے ساتھ اُجاگر کرنا ہے کہ خدارا تعلیم میں، ٹیکنالوجی میں ملک کو آگے لایا جاۓ بشرطیکہ تعلیم کیلئے مثبت انداز میں حکمتِ عملی تشکیل دی جاۓ ۔
اب چونکہ یہاں آغاز ہی سے ہمیں اندھیرے میں رکھا گیا نہ ہم سائنسی میدان میں سرِفہرست آسکے البتہ شروعات میں سائنس پر ہی تنقید کے نشتر برسا دیے جس کے نتیجے میں اُس وقت کے لوگوں پر اِس تنقید کے منفی تاثرات قائم ہوئے یوں ہم سائنسی میدان میں ترقی کرنے سے محروم رہے ۔ اِس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہم مذہبی فسادات، قومی تعصب، مسلکی تنازعات اور سیاسی لڑائیوں میں اِس قدر گھرے ہوئے ہیں آیا اِس فعل نے ہماری سوچ کو محدود بنادیا اور ہم فقط اِن افعال کو ثواب کی نیت سے سرانجام دینے میں مگن ہیں ۔ ہماری تعلیمی میدان میں پیچھے ہونے میں اِن افعال کی بہت بڑی وجہ ہے ۔
دوئم سب سے اہم مسئلہ تعلیمی نظام کا ہے جو ہمیں تعلیمی سرگرمیوں میں دنیا کے مدمقابل نہ لاسکا ۔ یہاں طلبہ کیلئے نہ تو باقاعدہ حکمتِ عملی بنائی جاتی ہے اور نہ نصاب کو بہتر طریقے سے تشکیل دیا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے پاکستان میں ١١٠٠ میں سے ١٠٩۵ نمبر لیکر بھی کوئی طالبِ علم تھامس ایڈیسن یا آئن اسٹائن کی طرح مثالی شخصیت نہیں بن سکا؟ آخر کیوں؟ ہر باشعور پاکستانی کی نظر میں اِس سوال کے کئی جوابات ہیں اور ہر باشعور پاکستانی اُن وجوہات کو جانتا ہے جنکے سبب ہم محرومیت کا شکار رہے ہیں ۔
درحقیقت یہاں صورتحال ایسی بنادی گئی ہے کہ ہر طالبِ علم نمبروں کی دوڑ میں مشغول ہے ۔ اپنے خواب کو پورا کرنے اور اِس صورتحال کو مددنظر رکھتے ہوئے وہ کر بھی کیا سکتا ہے؟ علاوہ اِسکے وہ اِس دوڑ میں ناکام ہوجاۓ، واحد آسرا یہی ہے رٹّہ لگا کر اُن نمبروں کو حاصل کرلیا جاۓ اور اپنے کیریئر کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاۓ وگرنہ پھر یہ نظام آپکو اپنا کیریئر جاری رکھنے کا کوئی موقع نہیں دیگا ۔
اِس صورتحال کا خمیازہ عملی طور پر کارآمد نہ بنانے کا بھگت رہے ہیں ۔ اگر یورپ نے ترقی کی مثال قائم کی تو اُسکی وجہ اُنہوں نے اپنا رجحاں سیکھنے پر رکھا، عملی کاموں کو زیادہ ترجیح دی ۔ بدقسمتی سے ہم میں یہ صلاحیت موجود نہیں ۔ کیونکہ معذرت کے ساتھ ہمیں کتابیں پڑھا کر اُنکا رٹّہ لگوایا جارہا ہے تعلیم نہیں دی جارہی ۔ عملی طور پر کچھ کر دِکھانے کیلئے ہم کتنا تیار ہیں یہ ہم خود جانتے ہیں ۔
میری اِس تحریر کا مقصد کسی کی دل آزاری ہرگز نہیں بلکہ خالصتاً نیک نیتی کے ساتھ تعلیم کو بہتر بنانے کے حوالے سے چند گزارشات ہیں کہ ملک میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلئے مثبت حکمتِ عملی بنائی جاۓ، طلبہ کیلئے نصاب کو بہتر تشکیل دیا جاۓ، تعلیم کو سب کیلئے آسان کیا جاۓ، یکساں اور ایک بہترین تعلیمی نظام فراہم کیا جاۓ ۔ ملک میں اگر تبدیلی اور ترقی چاہیے تو تعلیم کے اِس زیور کو ہر خاص و عام کیلئے یکساں، آسان اور بہتر سے بہتر بنانے کیلئے کوششیں جاری رکھنا ہونگی اِسی صورت میں آنے والے وقتوں میں وطنِ عزیز تبدیلی اور ترقی کی دوڑ میں دنیا کے مدمقابل ہوگا ۔