محسن پاکستان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان


محمد راحیل وارثی

یہ اٹل حقیقت ہے کہ اس دُنیا میں جو آیا ہے، اُسے ایک نہ ایک دن یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجانا ہے۔ اس جہان میں اُنہی لوگوں کو اچھے ناموں سے یاد رکھا جاتا ہے، جو لوگوں کے لیے نیک کام کرتے اور اُن کی زندگیوں کو سہل بنا جاتے ہیں۔ ہمارے ملک پر رب کا خاص احسان ہے کہ اُسے مالک کائنات نے ایسے سپوتوں سے نوازا، جنہوں نے وطن کی محبت، استحکام، مضبوطی کے لیے شب و روز کڑی ریاضتیں کیں اور اسے وہ مقام دلانے میں سرخرو ہوئے، جس سے دشمن کے تمام تر مذموم منصوبے خاک ہوئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کا نام ایسے محب وطن افراد میں سرفہرست نظر آتا ہے۔ کافی عرصے سے محسن پاکستان اور فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خرابیئ صحت سے متعلق اطلاعات سامنے آرہی تھیں، اتوار کو علی الصبح اُن کی طبیعت خراب ہوئی، اُنہیں ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے اُن کی زندگی بچانے کی سر توڑ کوشش کی، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے اور خالقِ حقیقی سے جاملے۔ پاکستان کو دُنیا کی پہلی ایٹمی اسلامی قوت بنانے میں اُن کا کلیدی کردار تھا۔ انہوں نے بیرون ملک عیش و عشرت کی حامل زندگی کو ٹھکرا کر ملک و قوم کی خدمت کو اوّلین ترجیح دی اور اس مقصد کے لیے دن رات کڑی محنت کی۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال پر بہت دکھ ہوا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے قوم کی حفاظت کے لیے ایٹمی طاقت بنانے میں پاکستان کی مدد کی، ہم ایک شکر گزار قوم کی حیثیت سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کو کبھی نہیں بھولیں گے، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نے بڑے جوہری ملک کی جارحیت سے ملک کو محفوظ بنایا، پاکستانی عوام کے لیے وہ قومی ہیرو تھے، پاکستانی عوام کے لیے وہ ایک قومی مثال تھے، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے پر پوری قوم ان سے محبت کرتی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں، اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے۔ وفاقی وزرا شیخ رشید، فواد چودھری، سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، گورنر پنجاب چودھری سرور، گورنر سندھ عمران اسماعیل، وزیراعلیٰ سندھ مُراد علی شاہ اور دیگر اہم شخصیات نے اُن کی وفات پر گہرے دُکھ کا اظہار کیا ہے۔ بعدازاں ڈاکٹرعبدالقدیرخان کواسلام آباد کے ایچ 8 قبرستان میں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردخاک کیا گیا، تدفین سے قبل گارڈ آف آنرز پیش کیا گیا، مسلح افواج و پولیس کے دستوں نے سلامی پیش کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خواہش کے مطابق ان کی نماز جنازہ اسلام آباد کی فیصل مسجد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے پڑھائی، ڈاکٹر عبدالقدیر کی نماز جنازہ کے موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے، نماز جنازہ کے دوران بارش بھی ہوتی رہی۔ نمازِ جنازہ میں قائم مقام صدر سینیٹر صادق سنجرانی اور وفاقی وزراء سمیت سیاسی و عسکری قیادت نے بھی شرکت کی۔

جوہری قوت کا حصول کوئی آسان کام نہ تھا، یہ برسوں کی ریاضت کے طفیل ہوا، وطن عزیز کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے کا سہرا بلاشبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سر بندھتا ہے۔ 28 مئی 1998 کو پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے جواب میں کامیاب ایٹمی تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہی کی تھی۔ اُن کے حالات زندگی پر مختصر نگاہ ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم یکم اپریل 1936 کو بھوپال (غیر منقسم ہندوستان) میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی، انہوں نے 1960 میں کراچی یونیورسٹی سے میٹالرجی میں ڈگری حاصل کی، بعد ازاں مزید تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے، انہوں نے جرمنی اور ہالینڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جب کہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کیں، 15 برس یورپ میں رہنے کے بعد حکومت پاکستان کی درخواست پر 1976 میں ملک واپس آئے، انہوں نے 31 مئی 1976 میں انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی۔ بعدازاں اس ادارے کا نام یکم مئی 1981 کو جنرل ضیاء الحق نے انہی کے نام پر ’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام کا حامل ہے۔ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے ناصرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کے لیے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائل سمیت کم اور درمیانی رینج تک مارکرنے والے متعدد میزائل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 1996 میں انہیں پاکستان کے سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز سے نوازا گیا، قبل ازیں انہیں 1989 میں ہلال امتیاز بھی عطا کیا گیا تھا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رحلت پر پوری قوم افسردہ اور گہرے رنج میں مبتلا ہے۔ ہر آنکھ اشک بار نظر آتی ہے۔ اُن کا خلا کبھی پُر نہ ہوسکے گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اُنہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ الوداع ڈاکٹر صاحب، ملک و قوم آپ کے احسانات کبھی نہیں بھلا سکیں گے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔