شرمین نے مس مارول میں تقسیم برصغیر کو سچائی کیساتھ پیش کیا، مہوش
کراچی: ہالی وُڈ کی سپر ہیرو ویب سیریز مس مارول میں اہم کردار نبھانے والی مہوش حیات کا کہنا ہے کہ ہدایت کارہ شرمین عبید چنائے نے ویب سیریز میں تقسیم برصغیر کے واقعات کو صداقت اور سچائی کے ساتھ پیش کیا۔
6 قسطوں پر مشتمل مس مارول کی اولین قسط گزشتہ ماہ 8 جون جب کہ آخری قسط رواں ماہ جولائی کے وسط میں ڈزنی پلس پر ریلیز کی گئی تھی اور اس ویب سیریز کو دنیا بھر میں سراہا گیا تھا۔
جہاں ویب سیریز میں پہلی بار مسلمان باحجاب لڑکی کو سپر ہیرو کے طور پر دکھایا گیا تھا، وہیں اس میں پہلی بار کسی پاکستانی لڑکی کو بھی سپر ہیرو دکھایا گیا جب کہ ویب سیریز میں اردو زبان کے ڈائیلاگز سمیت صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے مناظر بھی دکھائے گئے تھے۔
تاہم ‘مس مارول’ کو تقسیم برصغیر اور قیام پاکستان سے متعلق مناظر اور ڈائیلاگز پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور لوگوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ویب سیریز میں بھارتی بیانیے کو اہمیت دی گئی ہے۔
ویب سیریز کے ایک منظر میں فواد خان کو تحریک آزادی کے رکن کے طور پر دکھایا گیا تھا مگر انہیں قائداعظم محمد علی جناح کے برعکس گاندھی کی زیادہ تعریفیں کرتے دکھایا گیا تھا۔
ویب سیریز کے ایک اور منظر میں ‘مس مارول’ یعنی کمالہ خان کی نانی ثمینہ احمد کو کہتے ہوئے دکھایا گیا تھا کہ اگرچہ ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے مگر ان کی جڑیں بھارت میں ہیں۔
ویب سیریز کے مذکورہ دونوں مناظر پر پاکستانی شائقین نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ٹیم پر شدید تنقید کی تھی مگر اب مہوش حیات نے کہا ہے کہ ہدایت کارہ شرمین عبید چنائے نے تقسیم ہند کی تاریخ کو صداقت اور سچائی کے ساتھ پیش کیا۔
مہوش حیات نے انسٹاگرام پر ویب سیریز کے مناظر سمیت اس کے پریمیئر کے دوران کھنچوائی گئی تصاویر شیئر کرتے ہوئے تمام ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا۔
مذکورہ پوسٹ میں مہوش حیات نے ویب سیریز کی پوری ٹیم کی تعریفیں اور شکریہ ادا کیا، ساتھ ہی انہوں نے شرمین عبید چنائے کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس میں تقسیم برصغیر جیسے اہم مسئلے کو صداقت اور سچائی کے ساتھ پیش کیا۔
مہوش حیات نے اپنی پوسٹ میں ‘مس مارول’ کے پروڈیوسرز اور ‘مس مارول’ یعنی کمالہ خان کا کردار تخلیق کرنے والی پاکستانی نژاد لکھاری ثنا امانت کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس طرح کا کردار تخلیق کیا، جسے دیکھنے کے بعد بہت ساری پاکستانی اور مسلمان لڑکیاں خود کو سپر ہیرو کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔