شہنشاہ غزل مہدی حسن کو کبھی بھلایا نہ جاسکے گا
سالگرہ کی مناسبت سے خصوصی تحریر
آپ کو ”شہنشاہِ غزل“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے اپنی گائیکی سے دُنیائے موسیقی میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ دُنیا بھر میں آپ کے بے پناہ مداح تھے اورآج بھی اُن میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی ہوا۔ آپ 18 جولائی 1927 کو ایک گاؤں لونا، نزد منڈاوا، تحصیل جھنجھنو (برطانوی ہند) میں ایک موسیقار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ گزشتہ روز آپ کی سالگرہ منائی گئی۔
آپ نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد اُستاد عظیم خان اور چچا اُستاد اسماعیل خان سے حاصل کی۔ آپ نے اپنے فن کا پہلا مظاہرہ جواں عمری میں ایک کنسرٹ میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کیا۔ 1947 میں آزادی کے بعد آپ اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے، جہاں ابتدا میں آپ کے اہل خانہ کو خاصی جدوجہد کرنا پڑی۔ آپ نے گھر کا معاشی نظام چلانے کے لیے چیچہ وطنی میں ایک بائیسکل شاپ میں کام کرنا شروع کردیا۔ پھر آپ کار اور ڈیزل ٹریکٹر کے مکینک بن گئے۔ اس دوران آپ موسیقی کی مشقیں باقاعدگی سے کیا کرتے۔
1957 میں آپ کو دوبارہ ریڈیو پاکستان میں بطور ٹھمری گلوکار موقع ملا۔ پھر آپ نے غزلیں گانے کا تجربہ کیا۔ قبل ازیں آپ 1952 میں ریڈیو پاکستان کے لیے اپنا پہلا گانا گاچکے تھے۔ آپ کا پہلا فلمی گانا ”نظر ملتے ہی دل کی بات کا چرچا نہ ہوجائے“ تھا، جو 1956 کی فلم شکار میں شامل تھا۔ 1964 میں ”فرنگی“ میں فیض کی غزل ”گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نوبہار چلے“ نے آپ کو شہرت کی بلندی پر پہنچادیا اور پھر آپ نے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ آپ نے کئی مقبول گیت اور غزلیں گائیں۔
آپ کا اور لتا منگیشکر کا دوگانہ ”تیرا ملنا“ 2010 میں ریلیز کیا گیا۔ شعبہ موسیقی میں شاندار خدمات پر حکومت پاکستان کی جانب سے مختلف مواقع پر آپ کو پرائیڈ آف پرفارمنس، تمغہ امتیاز، ہلال امتیاز اور نشان امتیاز جیسے اعزاز عطا کیے گئے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار عالمی اعزازات سے آپ کو نوازا گیا۔ آپ کافی عرصے سے علیل تھے۔ 13 جون 2012 کو کراچی میں آپ کا انتقال ہوا۔