اور جب منور حسن گاڑی سے اترے
وہ اسی کرسی پر بیٹھے تھے، جس پر چند ماہ قبل پروفیسر غفور احمد براجمان تھے، اور ہم ان کے انٹرویو کو سر جھکائے حاضر ہوئے تھے۔
یہ جنوری ۲۰۱۱ کا ذکر ہے۔ موسم خوش گوار تھا، اور اسلامک ریسرچ اکیڈمی، فیڈرل بی ایریا میں جاری سرگرمیوں میں معمول کا اطمینان تھا۔
ہم دروازے ہی پر کھڑے تھے، جب ان کی کار آ کر رکی۔ کوئی خاص سیکیورٹی نہیں تھی۔ کسی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ ہمارے ایک ساتھی نے احتراماً سگریٹ بجھا دی۔ (مجھ لگا، وہ جماعت اسلامی کا رکن ہے)
ان کی سادگی میں وقار تھے، وہ اس شخص سے مختلف دکھائی دیتے تھے، جن کے ٹی وی اینکرز کو دیے جانے والے سخت جوابات کا ان دنوں شہرہ تھا۔
کبھی وہ دوران انٹرویو، انٹرویو دینے سے انکار کر دیتے، اور کبھی اینکر کے بے ربط سوالات پر اس کی سرزنش کرتے دکھائے دیتے۔
مگر اس روز ایسا نہیں تھا ۔ ۔ ۔ جنوری کی دھوپ خوش گوار تھی، اور ہم کسی سنسنی خیزی کے متلاشی نہیں تھے۔
ابتدا میں منور صاحب کا انٹرویو کسی اور کمرے میں طے تھا۔ مگر وہ کہنے لگے: "غفور صاحب کے کمرے میں بیٹھتے ہیں، صفائی کے نمبر بھی مل جائے ہیں!” (جملے کے آخر میں ایک قہقہہ تھا) وہیں، اسی کرسی پر، جس پر چند ماہ قبل پروفیسر غفور احمد بیٹھے تھے، اب منور صاحب بیٹھے ہمارے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔
کتنے ہی سوالات تھے: دہشت گردی، پی پی سرکار، اگلا الیکشن، اسٹیبلشمنٹ، کراچی اور ایم کیو ایم ۔ ۔ ۔ مگر ہمارا محور ان کی شخصیت تھی۔
ہاں، الیکشن ۲۰۱۲ سے عین پہلے ان کا ایک سیاسی نوعیت کا نیم متنازع انٹرویو کیا تھا، جو روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوا۔ بعد ازاں، جب وہ امارت سے الگ ہوگئے ، تب ہم اسی ریسرچ سنیٹر میں، مگر کسی اور کمرے میں پم پھر ان سے ملے۔ اس وقت تک ان کا وزن کچھ گر گیا تھا، مگر مزاج میں اب بھی تپش تھی۔ کچھ ہی ماہ قبل انھوں نے فوجی جوانوں کی شہادت سے متعلق ایک متنازع بیان دیا تھا۔
لیکن آج تنازعات موضوع نہیں۔ بس، قلم اس اولین ملاقات کی یادیں کھنگلاتا ہے۔
دفتر سے روانگی سے قبل استاد محترم احفاظ صاحب نے انھیں سلام کہا تھا۔ جب ہم نے سلام پہنچایا، تو منور صاحب نے احفاظ صاحب کی خیریت پوچھی، ان کے صاحب زادے کی بابت سوال کیا، اور کہا: میرا بھی سلام کہیے گا۔
ہم تین بارے ملے، یہ ملاقاتیں ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے طویل انٹرویوز پر مبنی تھیں۔
ان کے امارت سے الگ ہونے کے بعد جب میں نے کالم لکھا، تو احفاظ صاحب نے ناپسندیدگی اظہار کیا کہ بہ قول ان کے، میں درست تجزیہ کرنے سے قاصر رہا تھا۔ وہ ٹھیک ہی کہہ رہے تھے۔ میں فقط ان کی شخصیت کے لطیف پہلو ہی پر بات کرسکا۔ حالاں کہ جلال بھی ان ہی کی شخصیت کا حصہ تھا۔
جب میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کے ناقدین کے مطابق آپ غصے کے بہت تیز ہیں، تو ہنستے ہوئے کہنے لگے: ہاں بھئی، غصہ آتا ہے اور خوب آتا ہے۔
منور صاحب چلے گئے۔ گزشتہ تین عشروں کا معتبر سیاست دانوں میں سے ایک رخصت ہوا۔ صاحبو، ۲۰۲۰ بہت بھاری ثابت ہورہا ہے ۔ ۔ ۔
البتہ یقین ہے کہ یہ قد آور سیاست داں ایک توانا یاد کی صورت لاکھوں ذہنوں میں باقی رہے گا ۔ ۔ ۔
اختلافی پہلوؤں کے ساتھ، ان کی ناراضی کے ساتھ، اور ان کی مسکراہٹ کے ساتھ۔