جب ممنون حسین گورنر بنے
عاجز جمالی
کوئی لگ بھگ 22 سال پرانی بات ہے، اخبار کی رپورٹنگ ڈیسک پر خبر آئی کہ سندھ کا گورنر تبدیل ہورہا ہے۔ سندھ میں تب (ر) جنرل معین الدین حیدر گورنر تھے۔ معین الدین حیدر پاک فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کے قریبی دوستوں میں سے تھے اور کراچی میں حکیم سعید کے قتل کے بعد انہیں گورنر مقرر کیا گیا تھا۔ معین الدین حیدر مضبوط گورنر تھے۔ وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ دونوں سے اچھے تعلقات کی وجہ سے وہ کافی حد تک فری ہینڈ بھی تھے، اس لیے اُن کی تبدیلی کی بات اُس وقت ہضم نہیں ہورہی تھی۔ سرکاری ٹی وی پر خبر آچکی تھی کہ صدر محمد رفیق تارڑ نے ممنون حسین کو گورنر سندھ مقرر کردیا۔ چیف ایڈیٹر کا سیاسی رپورٹرز کو حکم آگیا کہ ممنون حسین کا اتا پتا نکالا جائے کہ کون ہیں، کہاں سے آئے۔ یہ تو معلوم تھا کہ ممنون حسین بزنس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور نواز شریف کے قریبی دوست ہیں، لیکن ان کے سیاسی پس منظر سے متعلق معلومات نہ تھیں، لیکن یہ کافی تھا کہ غیر سیاسی شخصیت، بزنس مین اور پھر وزیراعظم کے دوست۔۔۔
چونکہ ممنون حسین زیادہ عرصہ گورنر نہیں رہ سکے۔ جون سے اکتوبر تک چار ماہ کچھ دن اور پھر نواز شریف کی حکومت چلی گئی۔ 12 اکتوبر 1999 کی وہ رات بھی بڑی تاریخی تھی اور ممنون حسین، غوث علی شاہ، آئی جی سمیت سب کو گرفتار کرنے کا حکم تھا۔ وزیراعظم نواز شریف بھی گرفتار ہوچکے تھے۔ جنرل پرویز مشرف اس مسافر بردار طیارے میں سوار تھے، جس کے لیے کہا گیا تھا کہ طیارہ ہائی جیک کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ طیارہ ہائی جیک اس لیے کیا گیا تھا فوج کے سربراہ کو چونکہ وزیراعظم نے ہٹادیا، اس لیے جنرل پرویز مشرف کو ملک پہنچتے ہی کسی ایئرپورٹ پر گرفتار کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔
یہ سب سچ تھا یا پھر خواب، لیکن اس سچے خواب کی تعبیر سے قبل ہی ملک بھر میں ایمرجنسی کا نفاذ ہوگیا تھا اور سرکاری ٹی وی نے یہ کہنا شروع کردیا تھا، مستقبل کا اہم اعلان جلد ہونے والا ہے۔ دفتر کا حکم تھا کہ جب تک معاملہ واضح نہیں ہوتا تب تک سارے رپورٹرز دفتر سے باہر نہیں جاسکتے۔ گویا دفتر میں مارشل لا لگ گیا تھا۔ سچ تو یہ کہ خبر صرف اتنی تھی کہ ایئرپورٹ سے غوث علی شاہ اور دیگر کو حراست میں لیا گیا ہے۔ پی ٹی وی مرکز، ریڈیو پاکستان، بندرگاہ اور دیگر سرکاری عمارتوں کے باہر باوردی جوان پہنچ گئے تھے۔ دوسری بڑی خبر فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کا خطاب اور اس خطاب کا طویل انتظار تھی۔ خطاب کا وقت بار بار تبدیل ہوتا رہا۔ پہلے بتایا گیا کہ براہ راست خطاب ہوگا، پھر کہا گیا خطاب ریکارڈ ہوگا۔ سنا یہ بھی گیا کہ ریکارڈنگ پہلے پنڈی بھیجی گئی، اس کو سنا گیا، پھر سے ایڈیٹنگ ہوئی بالآخر رات گئے اخبار کے دفتر میں ہی ہم سب نے خطاب سنا۔ ملک میں ایمرجنسی کا باقاعدہ اعلان ہوتے ہی دفتر سے ایمرجنسی ختم ہونے کا اعلان ہوا۔ نامکو سینٹر سے نکلتے ہی سنسان رات میں ڈبلیو گیارہ کا ملنا بھی معجزہ تھا۔ 1999 تک بھی کراچی میں ڈبلیو گیارہ کی چھمک چھلو بسیں رات گئے تک چلتی تھیں۔
مشرف دور میں ممنون حسین بھی سیاسی طور پر سرگرم ہوگئے اور سندھ میں مسلم لیگ (ن) کو سرگرم رکھنے میں اپنا کردارادا کیا۔ جلسوں، جلوسوں میں بھی جانے لگے، جب پاکستان میں نجی ٹیلی وژن کا جنم ہوا اور ٹاک شوز ہونے لگے تو ممنون حسین ٹاک شوز اور انٹرویوز میں بھی دکھنے لگے۔
ممنون حسین نے اپنی شناخت ایک شریف انسان کے طور پر بنائی۔ اکثر مسلم لیگی انہیں شریف النفس کہتے تھے۔ ممنون حسین سے اکثر یہ سنا گیا کہ “وہ نواز شریف سے بے وفائی نہیں کرسکتے“۔ کراچی کے علمی، ادبی حلقوں اور تاجر برادری میں ممنون حسین کی اہمیت بڑھنے لگی۔ نواز شریف سمیت شریف خاندان کے لیے ممنون حسین فیملی ممبر جیسی حیثیت رکھتے تھے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد جب میاں نواز شریف وزیراعظم بن گئے تو ممنون حسین کو پہلے سے بھی بڑا عہدہ مل گیا بلکہ یہ ملک کا آئینی طور پر سب سے بڑا عہدہ تھا۔ انہیں صدر مملکت بنادیا گیا۔ مجھے یہ بات ایک سینئر مسلم لیگی رہنما نے بتائی تھی کہ ممنون حسین نے ایک جگہ کہا تھا کہ “مجھ پر نواز شریف کے اتنے احسانات ہیں کہ میں زندگی بھی قربان کردوں تو بھی کافی نہیں ہوگا“۔ ممنون حسین اپنے صدارتی دور میں ہائی پروفائل عہدے پر بھی لوپروفائل شخص رہے۔ بھارتی شہر آگرہ میں 1940 میں پیدا ہونے والے ممنون حسین کی عمر ابھی نو برس تھی کہ ان کے والدین نے ہجرت کی۔ کراچی یونیورسٹی میں وہ کامرس کے طالب علم رہے، ساٹھ کی دہائی میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست بھی کی تھی، لیکن تب اتنی سیاسی شہرت نہیں پائی تھی جتنی بعد میں نواز شریف کی مسلم لیگ میں پائی۔ وہ عرصہ دراز سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔ دو ہفتے تک زیر علاج رہے، گذشتہ روز 81 برس کی عمر میں کراچی کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے۔