ملک معراج خالد کی برسی خاموشی سے گزر گئی
ہم اپنے محسنوں کو فراموش کرتے چلے جارہے ہیں، اُن کے احسانات کو یکسر بھول چکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ 13 جون کو سابق وزیراعظم پاکستان ملک معراج خالد کی برسی خاموشی سے گزر گئی۔اُن کی ستائش میں محض ایک دو لوگ ہی پیش پیش نظر آئے۔
سابق نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد کا انتقال 13 جون 2003 کو اسلام آباد میں ہوا تھا۔ وہ درویش صفت شخصیت اور غریب کسان گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ اُن کی پوری زندگی سادگی سے عبارت رہی۔ نمودونمائش کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ ملک معراج خالد نگراں وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی عام مسافروں کی طرح ہوائی جہاز میں سفر کرتے۔ ساری زندگی اُن کا دامن پاک و شفاف رہا، اُن پر کبھی بھی کوئی الزام عائد نہ ہوا۔ علم کی شمع روشن رکھنے کے لیے زندگی بھر جدوجہد کی۔ علم کے فروغ میں اُن کا کردار ناقابل فراموش ہے۔
مستحق اور غریب بچّوں کو مفت نصابی کتب کی فراہمی کے لیے بک کلب آف پاکستان اور جیلوں میں قید بچوں کی تعلیم اور فلاح کے لیے پرزنرز ویلفیئر سوسائٹی قائم کی۔ عیش و عشرت، جاہ و حشمت کی کبھی تمنا نہ کی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ جس وقت پاکستان کے وزیراعظم تھے، کوئی ذاتی گھر تھا نہ کوئی آف شور کمپنی، وزیراعظم تھے، اتنے اہم عہدے پر ہونے کے باوجود بُلٹ پروف گاڑی واپس کردی، وزیراعظم ہاؤس نہ گئے دو کمروں پر مشتمل گھر کو پرائم منسٹر ہاؤس کا درجہ دیا، وزیراعظم ہوتے ہوئے رکشے میں سفر کرنے اور بازار جاکر سودا سلف خریدنے میں عار محسوس نہ کرتے تھے۔ قومی تاریخ میں ایسی نظیر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ وہ انسانیت کی خدمت کے لیے مصروف عمل رہے۔ وہ صحیح معنوں میں عوامی شخصیت کے معیار پر پورا اُترتے تھے۔ ملک بھر میں ان کی کوئی مل، فیکٹری یا کارخانہ نہ تھا۔ ملک کے کسی بھی حصے میں ذاتی گھر نہ تھا۔ پوری زندگی کرایہ کے مکان میں رہتے رہے۔
دُنیاوی طور پر اُن کے پاس مال و دولت نہ تھے، لیکن درحقیقت وہ اپنے اعلیٰ کردار کے سبب اور عامۃ الناس کی فلاح و بہبود کے معاملے میں سب سے ”امیر“ وزیراعظم تھے۔ اُن کا حلقہئ احباب خاصا وسیع تھا۔ معراج خالد کئی اہم ترین ملکی عہدوں پر فائز رہے، وہ وزیراعظم، قومی اسمبلی کے اسپیکر اور وزیراعلیٰ پنجاب رہے، وفاقی وزیر قانون بھی رہے۔ وزیراعظم بنے تو پروٹوکول سے پرے رہے۔ انہوں نے زندگی بھر خدمت خلق کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ تاریخ کو کھنگالا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے معراج خالد کے گھر پر ہی ڈالی، وہ پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں شامل تھے۔ یکم فروری 1916 کو ڈیرہ چاہل لاہور میں اُن کا جنم ہوا۔ 1939 میں انہوں نے انجمن اخوان اسلام بنائی اور کئی اسکولز قائم کیے۔ انہوں نے پاکستان کی بانی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ بھی کام کیا۔ قائداعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح سے بھی ملاقات رہی۔ آپ نے قیام پاکستان کے تمام مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ آزادی کے لیے دی گئی قربانیاں اور جدوجہد آپ کی نگاہوں میں محفوظ تھیں۔
ملک معراج خالد سیاست کے ذریعے عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار تھے۔ اسی سوچ کے پیش نظر انہوں نے پہلی بار 1951 میں انتخابات میں حصہ لیا، لیکن ناکامی ہاتھ آئی۔ اس ناکامی پر اُنہوں نے اپنی جدوجہد کو ترک نہ کیا بلکہ کوششیں جاری رکھیں، انہی کاوشوں کے طفیل 1965 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں کامیابی مقدر بنی۔ ملک معراج خالد نے 1970 کے انتخاب میں بھی کامیابی حاصل کی، انہیں وفاقی وزیر برائے زراعت کا قلم دان سونپا گیا۔ 1996 میں بے نظیر بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد انہیں نگراں وزیراعظم بنایا گیا۔ آپ نے اس عہدے پر رہتے ہوئے سادگی کی ریت ڈالی، لیکن بعد میں آنے والے حکمراں آج تک اس کی پیروی سے اجتناب کرتے آرہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکمرانوں کی سطح پر سادگی کو اختیار کیا جاتا تو ملک و قوم کے حالات آج یکسر مختلف ہوتے۔
اس دُنیا میں آنے والی ہر شخصیت کو ایک نہ ایک دن اپنی طبعی عمر مکمل کرکے یہاں سے رخصت ہونا ہوتا ہے۔ دُنیا کو ویسے بھی فانی گردانا جاتا ہے۔ ملک معراج خالد بھی یہاں سے کوچ کرگئے۔ وہ یقیناً نیک روح تھے، جس نے ہر سُو اپنی پاکیزگی بکھیری۔ اسی لیے اُن کی وفات کو 18 برس بیت جانے کے باوجود لوگ اُنہیں اچھے نام سے یاد کرتے اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو اُن کی یاد میں آنسو تک بہاتے ہیں۔ معراج خالد اتنے بڑے عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود اپنے آبائی گاؤں اور مضافات کے لوگوں کے ساتھ نہایت بے تکلفی سے پیش آتے اور کوئی بھی شخص ان کی سادگی کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ ملک کی بڑی شخصیت ہیں۔ اُن کی پوری زیست مثالی ہے۔ اگر ہمارے حکمراں، سیاست دان اور دیگر صاحب حیثیت افراد اُن کی تقلید کریں تو حالات یکسر مختلف ہوسکتے ہیں۔ پھر کوئی غریب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ عوامی مسائل حل کی جانب بڑھیں گے۔ بحر علم سے ہمارے وطن کا بچہ بچہ بھرپور طور پر سیراب ہوگا۔ علم کی روشنی پھیلنے سے ملک ترقی کی منازل انتہائی تیزی سے طے کرسکتا ہے۔ ہر سو عدل و انصاف ہوگا۔ عدم مساوات کا خاتمہ ہوگا۔