قائد کا کراچی تقسیم در تقسیم
شہر قائد پر پے در پے ستم کے وار جاری ہیں ایک طرف شہر کراچی لاوارث ہے تو دوسری جانب ہر سیاسی جماعت اس پر اپنا حق جتاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ دو کروڑ کی آبادی والا شہر کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ اور منی پاکستان ہے اور اس شہر قائد سے پاکستان کا 70 فیصد ریونیو اکٹھا ہوتا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کراچی ہی پاکستان ہے اور کراچی کے بغیر پاکستان کی ریاست کا پہیہ لڑک تو سکتا ہے مگر چل نہیں سکتا۔
شہر کراچی کا دل سمندر کی طرح وسیع ہے اس میں جو بھی آیا جہاں سے بھی آیا کراچی نے ہمیشہ اپنی باہیں کھول کر اس کا استقبال کیا مگر اس شہر کے ساتھ اپنے ہوں یا پرائے سب نے ہی سوتیلی ماں والا سلوک کیا. پرانے بزرگوں کی کہاوت ہے اپنوں میں پڑی پھوٹ، لوگ لے گئے لوٹ کچھ اسی طرح کراچی اور مہاجر قوم کے نام لیوا رہنماؤں کے ساتھ بھی ہوا ہے جنہوں نے آپس کی لڑائیوں کو زندگی کا مقصد بنا کر دشمن کو اپنے درمیان پناہ دے کر مضبوط ہونے کا موقع دیا۔ کراچی کے شہریوں اور مہاجر قوم کو بے آسرا کرنے والے بھی شہر کراچی کے بے وقوف سیاسی قائدین ہیں۔ کراچی صوبے کا نعرہ پہلی بار تو نہیں لگا یہ لولی پاپ تو گزشتہ تین نسلوں سے دیا جا رہا ہے اور آخر میں مفادات پورے کرنے اور وزارتیں حاصل کرنے کیلئے کراچی کو کھانے والے یہی سیاسی گد کراچی اور عوام کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر کسی بھی مخالف کی گود میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں مگر اس بار سب کو اپنے ماضی کی کوتاہیوں کی تلافی کرنا پڑے گی نئی آنے والی نسلوں کیلئے اور کراچی کے مسائل کے مستقل حل کیلئے اپنے مفادات کی جنگ اپنی انا کی دیواریں اور اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہونا ہو گا۔
کراچی صوبے کی آواز کی ماضی میں نظر ڈالی جائے تو بہت بار اس آواز نے زور پکڑا مگر ہر بار ایک نئی سازش کے تحت اسے پایہ تکمیل تک پہنچنے سے روک دیا گیا۔جب 2008ء میں پیپلز پارٹی نے وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بنائیں تو پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے صلح کل کا نظریہ پیش کیا وہ نائن زیرو گئے اور بلاول کے پر امن مستقبل کیلئے دونوں جماعتوں کے ساتھ کام کرنے کا اعلان کیا۔ ایم کیو ایم وفاق اور صوبوں میں حکومت کا حصہ بن گئی۔ یہ وقتی بہار 2012ء تک کسی نہ کسی صورت جاری رہی اس دوران کئی دفعہ ایم کیو ایم کے وزراء نے اختیارات نہ ملنے اور دوسرے مطالبات کو منوانے کیلئے استعفے دیے۔ اس وقت رحمن ملک نے مفاہمت کا کردار ادا کیا۔2011 میں رہنما پاکستان مسلم لیگ (ن) میاں شہباز شریف نے کہا کہ ہم ایک پالیسی بنائیں گے کہ کیا پنجاب میں نئے صوبے بنانے چاہئیں یا کراچی کو بھی صوبہ بنانا چاہیے یا کسی اور جگہ صوبے کی ضرورت ہے پورے ملکی سطح پر گفتگو کی جائیگی۔شہباز شریف کی طرف سے کراچی صوبے کی بات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی طرف سے شہباز شریف کو خاصا تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
جون 2016 میں بھی صوبے کی بحث پر سندھ اسمبلی کا ماحول گرم رہا اس وقت مراد علی شاہ وزیر خزانہ تھے انکی تقریر کے دوران ایم کیو ایم والوں نے نعرے لگائے پھر لندن اور دبئی کا ذکر آتے ہی پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے کارکنان گتھم گتھا ہو کر لڑتے ہوئے نظر آئےاور جب ایم کیو ایم کے اراکین نے ملک میں 22 صوبے اور کراچی کو الگ صوبہ بنانے کا نعرہ لگایا تو پیپلز پارٹی کے ایک رکن نے اسپیکر سے مطالبہ کیا کہ کراچی صوبے کا مطالبہ کرنے پر ایوان میں پابندی لگائی جائے۔ اپنی اس بات کا جواز یہ بنایا کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ اسمبلی کا گرم ماحول، صوبے کے حالات کو مزید خراب نہ کرے گو کہ صوبے کی آواز نئی نہیں بلکہ جب جب لگی کسی نہ کسی طرح دبا دی گئی۔لاوارث کراچی کا برا حال دیکھتے ہوئے ایک بار پھر صوبے کا نعرہ بلند ہوا اور اس بار پھر اس میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے پیپلز پارٹی کی طرف سے نئی سازش سامنے آئی 20 اگست 2020 کو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرِ صدارت صوبائی کابینہ کے اجلاس ہوا جس میں سندھ بورڈ آف ریوینیو نے بتایا کہ اس وقت ضلع غربی میں 7 سب ڈویژنز ہیں، جن میں منگھوپیر، سائٹ، بلدیہ، اورنگی، مومن آباد، ہاربر اور ماڑی پور شامل ہیں۔
ان کی کل آبادی 39 لاکھ سے کچھ زیادہ بنتی ہے اور یوں آبادی کے حساب سے ضلع غربی پورے سندھ میں سب سے بڑا ضلع ہے اور کراچی بندرگاہ نئے ضلع میں ہے۔ سندھ کابینہ کے اجلاس میں سائٹ، بلدیہ، بندرگاہ اور ماڑی پور پر مشتمل نیا ضلع بنانے کی تجویز پر غور کیا گیا جس کے بعد کابینہ نے کیماڑی ضلع بنانے کی منظوری دے دی۔یاد رہے کہ کراچی میں بندرگاہ اور سائٹ ایریا محصولات کا بڑا ذریعہ ہیں جو اس ضلعے میں شامل کیے گئے ہیں جبکہ دوسری بندرگاہ پورٹ قاسم ملیر ضلع میں شامل ہے، جس کا قیام بھی سنہ 1996 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں عمل میں آیا تھا۔ کراچی کی ایک اور تقسیم کا فیصلہ بھی مذموم اور متعصبانہ سیاسی عزائم کا حصہ ہے پیپلزپارٹی نے اقتدار کو طول دینے کے لیے سندھ کے عوام میں تفرقہ پیدا کیا ان کا یہ عمل تعصب پر مشتمل ہے۔پیپلز پارٹی کراچی پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اسلئے جعلی مینڈیٹ دکھا کر کراچی کو تقسیم کر رہی ہے کراچی کے بغیر پیپلز پارٹی کا سندھ کارڈ نامکمل ہے۔ پیپلز پارٹی نےکراچی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب خیبر پختونخواہ تقسیم ہو سکتا ہے بلوچستان تقسیم کرنے کی بات کی جا سکتی ہے تو پھر سندھ تقسیم کیوں نہیں کیا جا سکتا۔
مزید نئے ضلعے بنا کر کراچی کو تقسیم کرنے کے بجائے صوبہ بنا دیا جائے۔کراچی کے شہریوں نے سندھ حکومت کی جانب سے کیماڑی کو نیا ضلع بنانے کو مکمل مسترد کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر بھی اپنی آزادی رائے کا استعمال کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار سخت ناراضگی سے کیا جبکہ کراچی کی سیاست میں بے حد بے چینی اور ہلچل دکھائی دی مگر افسوس کراچی کی عوام کے ووٹ پر راج کرنے والے آج بھی ایک دوسرے پر نشتر چلاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کس نے کراچی کو کتنا لوٹا اور کس نے کراچی کا کتنا سوچا یہ کراچی کی عوام بخوبی جانتی ہے۔ جس طرح قوم کے جذبات کی پرواہ کیے بغیر کراچی کی سیاست تقسیم ہو کر مختلف دھڑوں میں بٹ گئی بالکل اسی طرح اب قائد کا کراچی تقسیم در تقسیم ہونے کو ہے کیا کب تک بانیان پاکستان کی اولادوں کو کراچی کا شہری ہونے کی سزا دی جائے گی کب تک کراچی کو تعصب کا نشانہ بنایا جائے گا کراچی صوبہ ہی کراچی کے مسائل کا واحد حل ہے اور اسکے لئے مہاجروں کے تمام سیاسی دھڑوں کو قوم اور شہر قائد کے مستقبل کیلئے ایک ہونا پڑے گا۔
اس بار صوبے کی مہم کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے سب کو ایک آواز ہونا پڑے گا یا تو زندگی بھر اختیارات کے بغیر کراچی کی یتیمی کو سہنا پڑے گا یا پھر کراچی بارش سے ڈوبے یا کے الیکٹرک کے اندھیروں سے کراچی کے نوجوان سرکاری نوکریوں کو ترسیں یا حقوق کیلئے یہ سب دیکھتے ہوئے جینا ہو گا اگر واقعی اب کراچی اور کراچی کے شہریوں کو ان ناانصافیوں سے بچانا یے اور نئی آنے والی نسلوں کو روشن مستقبل دینا یے تو صوبے کی آواز کو مل کر لگانا ہو گا۔ میں چیف جسٹس آف پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان، صدر مملکت اور چیف آف آرمی اسٹاف سے بھی اپیل کرتی ہوں کہ سندھ حکومت کی طرف سے کئے گئے کراچی کی تقسیم کے متعصبانہ، امتیازی، غیر انسانی اور کراچی دشمنی عمل پر نوٹس لیں۔
نوٹ: یہ بلاگر کی اپنی ذاتی رائے ہے. وائس آف سندھ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔