صلاح الدین حیدر کے کڑاکے دار سوالات اور بے نظیر بھٹو
وہ نہ کوئی میرے گہرے دوست تھے نہ ہی ہم عصر۔ جب ہم نے رپورٹنگ شروع کی وہ ملک کے مایہ ناز صحافی تھے۔ بہت بڑے سیاسی رپورٹر۔ ان کے ہم عصر یا ان کے پائے کے اُس زمانے کے جو رپورٹرز تھے ان میں ادریس بختیار، صبیح الدین غوثی، یوسف خان، مظہر عباس، شمیم احمد، زاہد حسین اور دیگر جن سے ہماری بعد میں ایک جونیئر رپورٹر کی حیثیت میں شناسائی ہوئی، چونکہ جب ہم کراچی پریس کلب کے رکن بنے تب صلاح الدین حیدر کي صدارت کی مُدت ختم ہوچکی تھی۔ وہ 1994 میں کراچی پریس کلب کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ صلاح الدین حیدر کے ساتھ پریس کلب کی باڈی میں طاہر حسن خان، عامر ضیاء، معین الحق، زرار خان جیسے منجھے ہوئے صحافی شامل تھے۔
ہمارا ان سے ادب و احترام اور سینئر کا تعلق تھا جو تب تک جاری رہا جب تک صلاح الدین حیدر رپورٹر تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ وہ سیاست کی نذر ہوگئے اور سچ تو یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کی سیاست صحافت کے بڑے بڑے ناموں کو نگل گئی۔ اس پر مجھے اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد آرہا ہے۔
یہ 1998 کی بات ہے کہ تب کے وفاقی وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید کو نہ جانے کیا سُوجھی کہ انہوں نے سندھی اخبارات کے صحافیوں کو ملک گیر دورہ کرانے کا فیصلہ کیا۔ اور ہم لوگ سرکاری خرچ پر پندرہ روز تک اسلام آباد، کوہ مری، پشاور، لنڈی کوتل تک سیر سپاٹے کرتے رہے۔ حکومت جلال آباد تک لے کر جانا چاہتی تھی لیکن طالبان کی حکومت تھی اور بارڈر پر سخت کشیدگی۔ لنڈی کوتل میں پہاڑی پر موجود بیس کیمپ پر ایک میجر صاحب نے ہمیں بریفنگ دی تھی کہ جلال آباد کے حالات بہت خراب ہیں۔ پہاڑی پر ہم دیکھ رہے تھے کہ افغانستان سے اونٹوں، گھوڑوں، گدھوں اور موٹر سائیکلوں پر لوگ روسی الیکٹرانک اشیا لارہے تھے، ان کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ خیر ہم جلال آباد تو نہیں جاسکے۔ پندرہ روزہ اس دورے کے دوران اسلام آباد کے براڈ کاسٹنگ ہائوس میں دو گھنٹے کی روزانہ ورکشاپ بھی ہوتی تھی، جس کے دوران امر جلیل، ظفر عباس، محمد مالک، عرفان صدیقی، شیریں مزاری، ڈی جی ریڈیو پاکستان، ایم ڈی پی ٹی وی کے لیکچرز بھی سنے۔ پی ٹی وی سینٹر پر مشہور سرائیکی گلوکار پٹھانے خان سے بھی ملاقات ہوئی، لیکن اس دورے کا سب سے دلچسپ لیکچر ہمیں جی ایچ کیو راول پنڈی میں سننے کو ملا جو کہ آئی ایس پی آر نے منعقد کیا تھا۔ اس لیکچر میں ہمارا بڑا یادگار ٹاکرا رہا تھا، لیکن ہم وزیراعظم ہائوس میں جب گھوڑوں کا طبیلہ (طویلہ) دیکھنے گئے تو وہاں آصف زرداری کے مبینہ گھوڑے موجود ہی نہیں تھے، جن کے لیے حکومت کا دعویٰ تھا کہ آصف زرداری نے کروڑوں روپے کی کرپشن کی۔ ہم نے پوچھا گھوڑے کہاں گئے؟ وزیراعظم ہائوس کے ایک افسر نے کہا کہ یہ گھوڑے اب یہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوگئے ہیں۔ صدر مملکت فاروق لغاری سے جس دن ملاقات طے تھی، وہ اسی روز اسلام آباد سے اپنے آبائی گائوں چوٹی زیریں چلے گئے تھے، کیونکہ اسی روز قومی اسمبلی نے آئین کا آرٹیکل 58 ٹو بی ختم کردیا تھا اور صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیارات ختم کردیے تھے تو ایوان صدر میں قائم مقام صدر چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد سے ملاقات ہوگئی تھی۔
صلاح الدین حیدر صاحب کی بات چھیڑ کر میں ماضی کے اس قصے میں چلا گیا جس کا حاصل مطلب صحافیوں کو سیاست میں گھسیٹنا تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید نے ہم ایک دو دوستوں کو الگ الگ بلاکر ون ٹو ون ملاقات میں یہ پیشکش کی کہ ہم سندھ میں مسلم لیگ ن کی میڈیا ٹیم کا حصہ بن جائیں۔ سندھ میں تب لیاقت علی جتوئی وزیراعلیٰ تھے اور نواز شریف کی وفاقی حکومت نے سندھ میں کالا باغ ڈیم کے حق میں مہم چلانے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ میں نے تو سیدھا موقف اختیار کیا تھا کہ مجھے تو سیاست میں جانا ہی نہیں ہے۔ مجھے صحافی ہی رہنا ہے پھر بعد میں ہمارے نواب شاہ کے ایک صحافی دوست نے سندھ حکومت کی میڈیا ٹیم میں شمولیت تو کرلی تھی، لیکن کالا باغ ڈیم کی حمایت میں مضامین لکھنے سے انکار کردیا تھا اور زیادہ عرصہ نہیں چل سکے۔ سو سیاست کس طرح صحافیوں کو نگل جاتی ہے یہ مثال کافی ہے۔
صلاح الدین حیدر جیسے اعلیٰ پائے کے صحافی کو بھی سیاست نگل گئی تھی۔ نوے کی دہائی میں ہم نے ایک جونیئر رپورٹر کی صورت میں صلاح الدین حیدر کو مختلف پریس کانفرنسوں میں سیاست دانوں سے بڑے سخت قسم کے سوالات کرتے دیکھا۔ نواز شریف ہوں۔ بے نظیر بھٹو ہوں یا پھر ایم کیو ایم کا بانی ہو۔ صلاح الدین حیدر اور ادریس بختیار کے کڑاکے دار سوالات ضرور ہوتے تھے، اس طرح ہم لوگوں کی تربیت ہوتی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد شاید 1997 میں بلاول ہائوس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پریس کانفرنس ہورہی تھی۔ جب سوالات کا سلسلہ شروع ہوا تو صلاح الدین حیدر نے ایک ایسا سوال پوچھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اتنی حد تک جذباتی ہوگئی تھیں کہ قریب ہی بیٹھے منور سہروردی کو حکم دیا کہ منور اس شخص کو باہر نکال دو۔ بے نظیر بھٹو کے اس رویے پر صلاح الدین حیدر احتجاج ہی کرنے والے تھے کہ منور سہروردی ان کی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر دوسری جانب لے گئے لیکن پریس کانفرنس کے ختم ہونے پر بے نظیر بھٹو کو احساس ہوگیا تھا کہ انہوں غلط کیا تو انہوں نے صحافیوں سے معذرت بھی کر لی تھی لیکن تب تک صلاح الدین حیدر بلاول ہائوس سے نکل کر پریس کلب پہنچ چکے تھے۔ صلاح الدین حیدر نے محترمہ سے سوال پوچھا کہ “سنا ہے آپ کے اور آصف علی زرداری کے درمیاں اختلافات شدید ہوگئے ہیں، کیا یہ سچ ہے؟ سوال سنتے ہی محترمہ نے صلاح الدین حیدر کو جھاڑ پلائی (تب نواز شریف کی حکومت تھی اور آصف زرداری جیل میں تھے)۔
صلاح الدین حیدر جب تک ایم کیو ایم میں باقاعدہ شامل نہیں ہوئے تھے اور جب تک سندھ کے مشیر اطلاعات نہیں بنے تھے تب تک وہ کراچی پریس کلب میں ملتے رہتے تھے لیکن سرکاری عہدہ ملنے سے قبل وہ خود ہی کراچی پریس کلب اور کے یو جے سے مستعفی ہوئے۔ حکومتی ذمے داریوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ دوبارہ صحافت کی جانب لوٹے اور آخری ایام تک اخبار اور مختلف ویب سائٹس پر کالم لکھتے رہے لیکن صحافی یا قلم کار جب ایک بار کاروبار سیاست کی نذر ہوتا ہے تو پھر وہ کبھی بھی پہلے جیسا نہیں رہتا۔ ایسی بہت سی شخصیات ہیں جنہوں نے صحافت چھوڑ کر سیاست میں مقام تو بنالیا، لیکن وہ واپس صحافت کی پٹری پر اپنا سفر پہلے کی طرح جاری نہیں رکھ سکیں۔ یہی صلاح الدین حیدر کے ساتھ وقت نے کیا۔ صلاح الدین حیدر کا گذشتہ روز ستر برس کی عمر میں انتقال ہوگیا اور وہ زندگی کے تمام پُرخطر راستوں کو الوداع کہہ کر چلے گئے۔