حُسین ابن علی (کربلا اور شَہَادت)
جب امام حُسین نے کربلا جانے کا ارادہ کیا تو بہت سے اصحاب اور اہل بیت کے دیگر افراد نے حُسین کو اپنے اقدام سے رکنے کا کہا، اور اُن تمام لوگوں نے یہی بات کہی کہ اے حُسین تُم اپنے نانا کے شہر کو چھوڑ کر کوفہ مَت جاؤ، تُم جانتے ہو کوفہ والوں نے تمہارے بابا علی کے ساتھ وفاء نہیں کی، تُمہارے بھائی حَسَن کا ساتھ بھی نہیں دیا تھا، تُم یزید کے خلاف اپنا قیام حِجاز سے کرو کیونکہ یہ اسلام کا گڑھ ہے، اور ہم سب تمہارے ساتھ ہیں، لیکن اِمام حُسین نے یہ جواب دیا کہ اُن لوگوں نے مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے کوفہ آنے کی دعوت دی ہے، اور اب میرا وہاں جانا لازم ہے کیونکہ میں اسلام کے خلاف کام ہوتے دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا، جس پر عبداللہ ابن عباس نے کہا کہ تو پھر آپ اپنی عورتوں اور بچوں کو لے کر مَت جائیں، مُجھے ڈَر ہے کہ آپ کو بھی عُثمان کی طرح عورتوں اور بچوں کے سامنے بے رحمی سے قَتَل کر دیا جائے گا، لیکن جو تقدیر میں تھا ویسے ہی ہوا، اِمام حُسین کو مشورہ دینے والوں میں ابو سَعید خُدری، عبداللہ بن عُمر، عبداللہ بن عبّاس، عبداللہ بن زُبیر اور دوسرے کچھ اصحاب شامل تھے.
اقوال امام حسین
ذلّت کی زندگی سے عِزّت کی موت بہتر ہے
میں اپنے نانا ، اللہ کے نبی (علیہ السلام) کی اُمّت کی اصلاح کے واحد مقصد کے لئے لڑنے کے لئے تیار ہوں۔ میں بھلائی کا حکم دینا چاہتا ہوں اور برائی سے روکنا چاہتا ہوں.
امام حُسین کو یہ خبر پہنچ چُکی تھی کہ کوفہ والوں کے دِل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن اُن کی تلواریں آپ کے خلاف ہیں.
اور پھر امام حُسین جب کربلا کی زمین پر پہنچے تو جن لوگوں نے امام حُسین کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی، ابن زیاد نے اُنہی لوگوں کو لالچ دے کر امام حُسین کے مقابلے پر کھڑا کردیا، اور امام کوفہ والوں کے خطوط دِکھاتے رہے، لیکن کوفہ والے ہر بات سے مُکرتے رہے اور آخر کار ظُلم کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہؤا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی.
پہلے تو عُمر بن سعد ہزاروں کا لشکر لے کر امام سے لڑنے کے لیے اُن کے مُقابل آگیا اور پھر اُن کے گھر والوں پر پانی بند کردیا.
اور پھر عاشوراء کے دِن شُجاعت اور شہادت کا ایسا سلسلہ شروع ہؤا جو تاریخ میں سُنہرے الفاظ سے لکھے گئے ہیں.
پہلے امام کے اصحاب نے پوری بہادری کے ساتھ حُسین کا ساتھ دیتے ہوئے اسلام کے لیے اپنی جان کے نظرانے پیش کیے، اور پھر مولا حُسین کے اہل و عیال نے ایک ایک کر کے جامِ شہادت نوش کیا، اور امام ہر جنازہ خود اُٹھا اُٹھا کر لاتے رہے، اپنے بیٹے کا جنازہ، اپنے بھتیجوں کا جنازہ، اپنے بھانجوں کا جنازہ، اپنے بھائی کا جنازہ اور انتہا تو یہ کہ چھ ماہ کے علی اصغر کا جنازہ جسے فوجِ اَشقیاں نے بے رحمی سے قتل کر دیا تھا.
امام حُسین نے دشمنوں سے مُخاطب ہو کر فرمایا کہ تُم آج مجھے پانی نہیں دے رہے، تو کل روزِ قیامَت میرے نانا رسولِ خُدا (صل اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس حوضِ کوثر پینے کے لیے کس مُنہ سے جاؤ گے، حُسین کو سُن کچھ لوگ جذباتی تو ہوئے لیکن اُن کی سفاکیت اُن پر غالب آگئی.
اور پھر آخر کار پیغمبر (علیہ السلام) کا جگر، علی کا شیر، فاطمہ کا لال میدان میں اُترا اور شُجاعت کے وہ جو جوہر دِکھائے جو مولا علی نے بَدَر و حُنین میں دِکھائے تھے، لیکن چونکہ شَہادت حُسین کا مُقدّر تھی، تو جیسے ہی عَصر کا وقت ہوا اِمام نماز کے لیے زِین سے زمین پر آگئے اور ابھی اِمام سجدے میں ہی تھے کہ فوجِ اشقیاں نے ہر طرف سے حُسین پر تیر برسانا شروع کر دیے اور کچھ نے تو پتھر امام کی طرف پھینکنا شروع کر دیے، اتنے میں ایک ملعون نے امام کے سینے پر آبیٹھا، امام نے اُس سے کہا کہ تو مُجھے جانتا نہیں ہے میں کون ہوں؟ تو اُس بیغیرت نے جواب دیا کہ حُسین میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تُمہارے نانا رسولِ خُدا (علیہ السلام) ہیں، باپ علی ابن ابی طالب ہیں، ماں فاطمۃ الزہراء ہیں، لیکن تُمہیں قتل کرنے پر مجھے بہت مال ملے گا! پھر ایک ملعون نے امام کی گردن پر ضَرب لگانا شروع کی اور تعداد بارہ ضربوں سے آگے چلی گئی، اور پھر اُس نے اِمام کی گردن کھینچنا شروع کی اور دوسری طرف سے ایک اور شخص نے امام کا جسم مُبارک کھینچنا شروع کیا حتیٰ کہ امام کی گردن الگ ہوگئی، اور پھر تمام شُہداء کے سروں کو نوکِ نیزا پر اُٹھالیا اور حَرَم کی عورتوں کی طرف بڑھے اور اُن کے خیموں کو آگ لگا کر اُن کی رِدائیں اُن سے چھین لِیں!
جس پر سَیّدہ زینب نے مدینہ کی طرف رُخ کر کے گِریہ کرتے ہوئے یہ دردناک الفاظ کہے؛
واء مُحمّد، واء مُحمّد، اے میرے پیارے نانا جان مُحمّد مُصطفىٰ (صل اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کی رحمتیں اور اُس کے فرشتوں کا آپ پر سلام ہو، آج آپ کا حُسین مقتل گاہ میں اِس حالت میں ہے کہ اُس کے کپڑے خون سے بھرے ہوئے ہیں اور حُسین کو بے دردی سے مظلوماً شہید کردیا گیا ہے، واء مُحمّدَ، واء مُحمّدَ، اے میرے نانا جان، آپ کے حُسین پر گھوڑے دوڑائے گئے ہیں، اے میرے نانا جان، آج آپ کی بیٹیوں کو بے پردہ کر کے قیدی بنا لیا گیا ہے، اور آپ کی نَسَلِ پاک کو جانوروں کی طرح ذبح کردیا گیا ہے.
سَیّدہ زینب کے یہ الفاظ سُن کر بہت سے کوفیوں نے رونا شروع کردیا، لیکن اُن کو اتنی توفیق بھی نصیب نہیں ہوئی کہ وہ امام حُسین اور اُن کے ساتھیوں کی تدفین کرتے.
امام حُسَین کے ایک بیٹے علی (السجّاد) اِس عظیم جہاد میں اپنی بیماری کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے تھے، لیکن وہ اپنے خیمہ سے تمام مناظر دیکھ رہے تھے، عصرِ عاشور کے بعد فوجِ اَشقیاں نے امام زین العابدین کو بھی قَتَل کرنا چاہا لیکن اُن کی پُھوپی زینب نے اُن کی حفاظت کی.
اور پھر سَیّد زادیوں کو بے پردہ رسیوں سے باندھ کر پہلے ابن زیاد کے مَحَل کوفہ لے جایا گیا جہاں پر اُس بَد بَخت نے امام حُسین کے سَر اور مبارک ہونٹوں پر چھڑی مارتے ہوئے اُن کے حُسُن پر گستخانہ کلام کرنے لگا، جس پر انس بن مالِک تڑپ اُٹھے اور کہا میں نے خود رسولِ خُدا (علیہ السلام) کو اِن ہونٹوں کو چومتے ہوئے دیکھا تھا. اور پھر اسیروں کا قافلہ سَفرِ شام کی طرف روانہ ہوا، جن میں حُسین کی چھوٹی دُختر سُکینہ بھی شامل تھیں، اِس سَفر کے دوران نہ جانے کتنے ہی بچے اُن کی ماؤں کی گود سے گِر گِر کر اُونٹوں کے پاؤں کے نیچے آتے رہے.
پورے راستے جہاں کچھ لوگ یہ سب دیکھ کر رو رہے تھے، تو وہیں بہت سے لوگ اہلِ حَرَم پر ہنستے اور پتھر برساتے تھے، پھر جب یہ اَسیروں کا قافلہ شام پہنچا تو یزید نے اہلِ حَرَم کی توہین کرنا چاہی لیکن سیدہ زینب اور امام زین العابدین نے اپنے خُطبات سے اُس بَد بَخت کو خاموش کرا دیا.
کچھ لوگ کہتے ہیں یزید کو نہیں پتا تھا کہ کوفہ میں کیا ہو رہا ہے اور اِن سب واردات سے بے خبر تھا!
میرا سوال یہ ہے کہ مان لیا کہ اُس کو نہیں پتا تھا اور وہ شرمندہ بھی تھا! تو اُس نے قاتلینِ حُسین سے قصاص کیوں نہیں لیا؟ اور جب حُسین کی شہادت پر عبداللہ ابن زبیر نے مکّہ اور مدینہ والوں کے ساتھ یزید کے خلاف خروج کا اعلان کیا تو اُس نے اپنی فوج بھیج کر مکّہ اور مدینہ پر حملہ کیوں کروا دیا اور اللہ اور اُس کے رسول کے حَرَم کو حلال کردیا کہ اُس کی فوج جو چاہے کرے، اِسی دوران خانۂ کعبہ پر حملہ کیا گیا جس سے غِلافِ کعبہ جل گیا اور مسجدِ نبوی (علیہ السلام) میں تین دِنوں گھوڑے باندھے گئے، اور مدینہ میں ہزاروں صحابہ کا قتلِ عام کیا گیا اور ہزار کے قریب با پردہ مسلمان خواتین کے ساتھ یزیدی فوج نے زِناہِ عام کیا. (استغفراللہ)
آخر میں، میں ایک رِقّت آمیز حدیث بیان کرنا چاہوں گا جس کے راوی حضرت عبداللہ ابن عبّاس ہیں، وہ کہتے ہیں میں ایک دن دوپہر کے وقت سو رہا تھا تو میں نے خواب میں نبی (علیہ السلام) کو دیکھا، آپ (علیہ السلام) کے کپڑوں اور جسمِ مُبارک پر مَٹی لگی ہوئی ہے اور بال پرانگدہ (بکھرے) ہوئے ہیں، اور ہاتھ میں ایک کانچ کی شیشی ہے! تو میں نے گھبرا کر آپ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ میرے ماں باپ آپ پر قُربان ہوں، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) یہ آپ کی کیا حالت ہے؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا آج میرے حُسین اور اُس کے ساتھیوں کو فُرأت کے کنارے قَتَل کر دیا گیا ہے، اور میں صبح سے اِس شیشی میں اُن کا خون جمع کر رہا ہو. عبداللہ بن عبّاس کہتے ہیں کہ میں فوراً اُٹھا اور میں نے وہ دِن اور تاریخ یاد کر کے نوٹ کرلی اور کچھ دِنوں بعد ہمیں خبر آئی کہ اُسی دِن حُسین کو شہید کیا گیا تھا.
اِس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ آپ (علیہ السلام) خود کربلا میں موجود تھے! بلکہ یہ تمسیلاً اللہ کریم کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ نبی (علیہ السلام) جس طرح اپنی زندگی میں اِس واقعہ کو یاد کر کے روتے تھے، اُسی طرح وفات کے بعد بھی اُنھیں امام حُسین کی شہادت پر شدید تکلیف اور رنج و غم ہوا ہے.
سیّدنا عَمّار تابعی (رحمۃ اللہ) کہتے ہیں، سَیّدہ اُمّ سلمہ (سلام اللہ علیہا) نے مجھے بتایا کہ میں نے خود جِنّات کو حُسین پر نوحہ (گریہ و زاری) کرتے ہوئے سُنا.
افسوس آج ہم میں بہت سے لوگ ہیں جو حُسین سے مُحبّت کا دعوٰی تو کرتے ہیں اور اُن کی شَہَادت کو الگ الگ انداز میں یاد بھی کرتے ہیں، اُن پر روتے بھی ہیں، لیکن امام حُسین نے جس مقصد کے حُصول کے لیے اپنی جان قُربان کردی، آج ہم میں سے کوئی بھی اُس مِشن اور سوچ پر چلنے کے لیے تیار نہیں ہے، ہم نے اپنا اسلام صرف مسجدوں تک محدود کردیا ہے اور عَملی میدان میں اُترنے کے لیے کوئی تیار نہیں.
کربلا کی ریت پہ سویا ہوا ہے دیکھ لو،
مسجدوں میں دھونڈتے ہو کونسے اسلام کو.
نوٹ: یہ بلاگر کی اپنی ذاتی رائے ہے. وائس آف سندھ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔