”حقوق نسواں“ کا مطلب کیا ہے اور کیا سمجھا گیا؟
کیا آ پ اپنی بیٹی بہن کو تعلیم دلوانے کے حق میں ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اسے صحت کا حق دیا جائے کیا؟ آپ چاہتے ہیں کہ اس کی زندگی کے فیصلوں میں اس کی مرضی شامل ہو؟ کیا آپ ایسا سوچتے ہیں کہ حکومتی ایوانوں میں خواتین کی نمائندگی ضروری ہے؟ کیا آپ کے خیال میں خواتین کا جنسی استحصال ظلم ہے؟ کیا آپ اس بات کے حق میں ہیں کہ برسرِروزگار خواتین کو مردوں کے مساوی معاوضہ ملنا چاہیے؟ اگر آپ اس سوچ کے حامی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی حقوق نسواں کے علمبردار ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس اصطلاح کو مطلب منفی معنی دے دیے گئے ہیں۔
ہمارے ہاں اچھے بھلے تعلیم یافتہ اور باشعور افراد بھی حقوق نسواں کا مطلب عورت کی آزادی لیتے ہیں۔ آزادی بے شک بنیادی حق ہی سہی لیکن احساس ذمہ داری سے عاری آزادی جنگل کے جانوروں کی خودمختاری کے مترادف ہوتی ہے۔ سو یہ بات تو ثابت ہوئی کہ آزادی اور ذمہ داری لازم و ملزوم ہیں۔ جب تذکرہ ہو انسانوں کا تو اس میں مرد و زن دونوں ہی شامل ہیں۔ عورت، مرد کی ضمنی مخلوق نہیں بلکہ مرد کی مانند ایک مستقل حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔ نظریہ حقوق نسواں کا ایک مذہبی پہلو بھی ہے۔ پاکستان میں اکثریت کا مذہب اسلام ہے، سو ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ حقوق نسواں کا تصور مذہب سے متصادم ہے حالانکہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل نہیں۔ ایک پختہ یقین کا نام ہے اور دوسرا محض ایک خیال۔ تبدیلی مذہب ایک کٹھن عمل ہے لیکن نظریہ میں بدلاؤ ممکن ہے۔ نفسیات کہتی ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ نظریات پر یقین میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے اور پرانے نظریات کی جگہ نئے تصورات لے سکتے ہیں۔
حقوق نسواں کے بارے میں اسلام کا تصور کیا ہے؟ اس کی تفصیل او ر باریکیوں سے قطع نظر صرف اتنا ہی کافی ہے کہ اسلام نے اسے ایک جامع شکل میں پیش کیا ہے، لیکن ہمارے ہاں اس تصور کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حقوق نسواں کے حوالے سے اسلام کا تصور محدود نہیں بلکہ ہمارے ذہن محدود ہیں، اسلام کو اس سوچ نے محدود کیا جسے انتہاپسندی کہا جاتا ہے۔ ہم چونکہ برصغیر پاک و ہند میں بسنے والی قوم ہیں سو حقوق نسواں سے متعلق بہت سے نظریات جو جڑ پکڑکر تناور درخت بن گئے اور ہماری نسلوں کو منتقل ہوئے، وہ محض تاریخ کا جبر تو ہوسکتے ہیں اسلام کا تصور نہیں۔
مدعا فقط اتنا ہے کہ خواتین کے حوالے سے ہمارا ذہن کتنا کھلا ہے؟ ہمارے قول و فعل میں تضاد ایک عام معاشرتی رویہ ہے اور یہ رویہ صرف مردوں تک محدود نہیں بلکہ خواتین بھی دوسری خواتین کے ساتھ روا رکھتی ہیں۔ دعویٰ تو ہم اسلام اور نبی کریم ﷺ کی محبت کا کرتے ہیں لیکن عملاً ان تعلیمات سے انحراف کرتے ہیں، جو محسن انسانیتﷺ نے خواتین کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے دیں۔ ہم ورثے میں ملنے والی روایات کی پیروی کرتے ہوئے خواتین کے بنیادی حقوق سلب کرلیتے ہیں اور پھر اسے مذہب کا لباس پہنا کر اپنے لیے طمانیت کا سامان پید کرلیتے ہیں۔ قدیم یونان میں عورت کی مرضی کا مالک اس کا والد ہوتا تھا، عورت اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے کے حق سے محروم تھی، شادی میں باپ کی مرضی لازمی شرط تھی۔ اس قاعدہ و قانون کی پامالی کی سزا کسی ویرانے میں دھکیل دینا یا بہ طور راہبہ کلیسا کے حوالے کرنا تھی، یورپ نے پاپائیت سے نجات حاصل کرکے اس ظلم سے چھٹکارا پایا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں روشن خیالی کی گنجائش ہے؟ دین فطرت نے مردوعورت کو شریک حیات کے انتخاب میں پسندوناپسند کا یکساں اختیار دے رکھا ہے۔ اسلام خواتین کے حصول تعلیم، کوئی ہنر حاصل کرنے اور ذریعہ معاش اپنانے پر پابندی نہیں لگاتا، لیکن وہ مغربی معاشرے کی بے حیائی، بے راہ روی اور بے لگام آزادی کی تائید نہیں کرتا۔ آغوش مادر بچے کی اولین درسگاہ ہوتی ہے جہاں سے وہ مذہب و اخلاق کا پہلا درس لیتا ہے، اگر ماں ہی غیرتعلیم یافتہ اور محدود سوچ کی حامل ہو تو وہ کس طرح اپنی اولاد کے شعور کی پرورش کرسکے گی؟ مگر افسوس کہ تبدیلی کے لیے تیار نہیں۔ ہم کتنی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہے اور پھر اسی تصور کو خواتین کے ساتھ روا ہر ظلم اور ناانصافی میں دلیل اور جواز بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر رب کریم نے مرد کو عورت کا محافظ بنایا تو اس کے پیچھے بھی محفوظ زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ ایک عورت 9 ماہ اپنے وجود میں بچے کی پرورش کرتی ہے، ولادت کی تکلیف سہتی ہے، بچے کو دودھ پلاتی ہے، ایک خاندان کی بنیاد رکھتی اور مرد کا گھر سنبھالتی ہے۔ اس محنت کے صلے میں عورت کے لئے مرد کا محافظ ہونا اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ ذہنی صلاحیت و قابلیت میں مرد سے کمتر ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت نفسیاتی طور پر بہت مضبوط ہوتی ہے، وہ کبھی عجلت میں فیصلے نہیں کرتی، خواہ حالات کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں؟ وہ آخری لمحے تک امید کی کیفیت میں رہتی ہے۔ طلاق جیسے معاملے میں مرد جہاں جلدبازی سے کام لیتا ہے عورت اتنی ہی تاخیر کرتی ہے، عورت ذہنی نہیں جسمانی طور پر کمزور ہوتی ہے۔
اسی لئے اسلام نے عورت کے معاشی استحکام اور نان نفقہ کی ذمہ داری مر د کو دے رکھی ہے اور اسے مہر کی ادائیگی کا بھی پابند بنایا ہے۔ مرد کے پاس زورِبازو ہے جب اس کے پاس دلیل ختم ہوجاتی ہے تو وہ ہاتھ اٹھاتا ہے، عورت ظلم سہتی اور چپ رہتی ہے۔ فطرت نے عورت کو نسوانیت اور مرد کو مردانگی کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ دنیا کی خوبصورتی یہی ہے کہ دونوں عزت و احترام کے ساتھ نظام زندگی چلائیں۔ اسلام نے عورت کو ایک جانب بیٹی، بہن، بیوی جیسے حسین رشتہ پر فائز کیا تو دوسری جانب جنت جیسی نعمت ماں کے قدموں کے نیچے رکھی۔ اسلام نے عورت کی تمام ضروریات کا بوجھ مرد کے کاندھوں پر ڈالا ہے لیکن اس زمانے میں مہنگائی کے عفریت اور معاشی مسائل نے بڑی تعداد میں خواتین کو معاشی ذمے داری اٹھانے کی خاطر گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کیا۔
”ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن“ کے مصداق خواتین کو گھریلو مشکلات کا بھی سامنا ہے اور سماجی مسائل کا بھی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ اور سوشل میڈیا کی مقبولیت سے بھی خواتین کی مشکلات بڑھیں، ان کا حل خواتین پر انٹرنیٹ، موبائل فون اور سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی نہیں بلکہ انھیں آن لائن دنیا میں تحفظ فراہم کرنا ہے۔ وقت کی رفتار کے ساتھ پاکستانی خواتین کے مصائب و مشکلات میں اضافہ ہوا ہے لیکن عصری تبدیلیوں کا ادراک کرکے ان مسائل کی تفہیم اور حل کی کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی نظر نہیں آتی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم نسواں کو فروغ دیا جائے، خواتین پر تشدد کو روکا جائے، ان کی عزت نفس بحال کی جائے، انہیں عزت و احترام دیا جائے۔ یہ کام کوئی اور نہیں صرف مرد ہی کرسکتا ہے۔ آپ اپنی بیٹوں کے ذہنوں کو اس سوچ سے مہکائیں۔ گھرگھر کی سطح پر یہ منصوبہ شروع ہوا تو کسی حکومتی منصوبے کے بغیر بھی خواتین کے مسائل حل ہونے لگیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد و عورت کو زندگی کا سفر ساتھ کرنا ہے تو پھر امتیازی سلوک کیسا؟ عورت وہ پھول ہے جو کائنات کو محبت کی خوشبو سے مہکا دیتی ہے، لیکن اگر اس کے وجود سے اپنے ہونے کے احساس کی مہک ہی چھین لی جائے تو گھر سے کائنات تک سب کچھ خوشبو سے محروم ہوجائے گا۔