بھوک

عارف خٹک

پردیس میں ہم پردیسیوں کے پاس خود کو دھوکہ دینے کیلئے خاصے مواقع میسر ہوتے ہیں۔ نہ لوڈشیڈنگ کی ٹینشن، نہ مہنگائی کا رونا، نہ امن و آمان کی شکایات اور نہ ہی سیاسی نظریات کہ پل پل خود کو جلاتے پھریں۔

یہاں جب کبھی میرا دل فاسٹ فوڈ یا عربی خوراک کھانے کا کرتا ہے، تو سب سے پہلے اپنے بٹوے میں کریڈٹ اور ڈیبیٹ کارڈز دیکھ کر خود کو یقین دلا دیتا ہوں کہ چلو آج جی بھر عیاشی کرلیتے ہیں۔ پھر وارڈ روب سے سے ایگل کی پینٹ اور زارا کا کوٹ نکال کر اورٹمبرلینڈ کے جوتے پہن کر کسی مال میں چلا جاتا ہوں۔ ایک دو گھنٹے ونڈو شاپنگ کرنے کے بعد جب بھوک مزید چمک جاتی ہے تو مال کے سب سے آخری والے فلور پر فوڈ کورٹ میں چلا جاتا ہوں۔ سب سے پہلے کونے والی میز پر قبضہ جما لیتا ہوں۔ اور تماشائے اہل کرم دیکھنے میں محو ہوجاتا ہوں۔

کثیرالنسل لوگ اور بھانت بھانت کی بولیاں، الگ الگ پیراہن پہنے خوبصورت لوگ ،ایک عجیب سا سرور دیتے ہیں۔ کھانے کی میز پر بیٹھی خوبصورت خواتین جب برگر اٹھا کر لقمہ لینے کی ناکام کوشش کرتی ہیں تو ناک اور باچھوں پر لگی چٹنیاں اور کیچپ ایک عجیب خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ کچھ خوش خوراک مرد عربی کھانے جس میں مٹن اور بیف کی مسحور کن خوشبو مجھ جیسے بھوکے بندے کو پاگل کردینے کیلئے کافی ہوتی ہے، مشغول ہوتے ہیں- کچھ لوگ اپنی فیملیز کیساتھ انجوائے کررہے ہوتے ہیں۔ میں اپنے سامنے دھرے عربی، اطالوی، کانٹینٹل، چائنیز، تھائی اور ہندوستانی کھانوں کے مینو دیکھ دیکھ کر خود کو خوش کرتا رہتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ پہلے کون سا کھانا کھاؤں۔ قوت فیصلہ بالکل ختم ہونے کے قریب ہوتی ہے کہ سامنے ایک میز پر ایک نوجوان پر نظر جا ٹھہرتی ہے جو ہم سب سے بے نیاز ،اپنی بوڑھی ماں کو نوالے توڑ توڑ کر کھلا رہا ہے۔ وہیل چیئر پر بیٹھی ماں کے منہ پر جب کیچپ لگ جاتا ہے تو کاغذی نیپکین سے وہ ایک چھوٹے بچے کی مانند اس کا منہ صاف کرتا ہے۔

اس وقت مجھے ہزاروں میل دور اپنی "ہٹلر ماں” کی بہت یاد آتی ہے، جو اس وقت گاؤں میں چارپائی پر، سر شام ابا کو یاد کرتے کرتے پھر بھوکی سو گئی ہوگی اور یقینا بہوؤں سے بہانہ بنا کر کہہ گئی ہو گی کہ "میں نے شام کی چائے کے ساتھ سوکھی روٹی کھا لی تھی اب دل نہیں کررہا،” اماں سے جب ہم بہن بھائی گوشت کھانے کی ضد کرتے تھے تو اماں ادائے دلبری سے ہاتھ لہرا کر یاد دلاتی، "تم لوگ کتنے فضول خرچ ہو، ابھی پچھلے ماہ جو گوشت کھلایا تھا!” میں دل میں ہنسنے لگتا کہ پاؤ بھر گوشت اور بالٹی بھر شوربے میں گیارہ بچوں کو کھلا کر اماں نے ہم پر احسان عظیم کیا ہے گویا۔ اماں میری طرف دیکھتی۔ میں سب بہن بھائیوں میں بڑا اور عقلمند بھی تھا۔ "بیٹا ان کی فضول خرچیوں کو دیکھو۔ ابا کی تنخواہ میں تم لوگوں کو پڑھاؤں یا گوشت کی عیاشی کرواؤں؟” اماں اپنی بے بسی کا بوجھ میری جھولی میں ڈال دیتی اور میں چھوٹے بہن بھائیوں کو سمجھانے لگ جاتا۔

ایک دفعہ گاؤں میں مونگ پھلی کی فصل اچھی ہوئی تو ہم بہن بھائیوں نے دوسروں کے کھیت سے مونگ پھلیاں چن کر جمع کیں اوربازار میں پانچ سو میں بیچ دیں۔ واپس آیا تو سب بہن بھائی بہت خوش تھے۔ چھوٹی والی بہن نے اماں سے پھر گوشت کی فرمائش کی۔ اماں نے اس دن حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے مجھے اجازت دی کہ بازار جاکر متو قصائی سے چار کلو اوجھڑی لے آؤں۔ اس رات ہمارے گھر میں گویا جشن کا سماں تھا۔ آماں نے بڑے سے دیگ میں اوجھڑی لکڑی کے چولہے پر چڑھا دی۔ ہر پانچ منٹ کے بعد ایک بچہ جاکر دیکھ آتا کہ پک گئی ہے یا نہیں۔ واپس آکر باقی بچوں کو بتاتے کہ ابھی پکنے میں وقت ہے۔ سب بچے بیتابی سے انتظار کرتے کہ شاید اب پکے تب پکے۔ شاید کلیم عاجز نے ہمارے لئے ہی یہ شعر کہا تھ:

دنیا میں غریبوں کو دو کام ہی آتے ہیں

کھانے کے لیے جینا، جینے کے لیے کھانا

اچانک سامنے پڑے مینو کے باتصویر کھانے دھواں بن کر صفحات سے اڑنے لگتے ہیں اور ماحول دھواں دھواں ہونے لگتا ہے۔ یہ دھواں مجھ سمیت ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ سو تیزی سے مال سے باہر آکر کھلی فضا میں زور زور سے سانس لینے لگتا ہوں۔ بغیر کھائے پئے گھر واپس آکر واک پر نکل جاتا ہوں کہ جو کیلوریز تصویریں دیکھ کر بڑھ گئی ہیں ان کو اگر نہ جلایا تو وزن پھر سے بڑھ جائے گا، اگر شوگر ہوگئی تو میری آنکھیں بالکل جواب دے جائیں گی، اور ابھی تو بہت ذمہ داریاں ہیں کاندھوں پر۔ ابھی بوڑھا ہونے کا رسک نہیں لیا جاسکتا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔