گاج ندی: تباہی اور خوش حالی ساتھ ساتھ

عاجز جمالی

گاج ندی سندھ کے ضلع دادو اور جامشورو کی حدود میں واقع ہے۔ کھیرتھر کا پہاڑی سلسلہ سندھ اور بلوچستان کو ملاتا ہے، اس لیے گاج کی ابتدا تو بلوچستان کے ضلع خضدار کے پہاڑوں سے ہوتی ہے، لیکن وہاں سے شروع ہوکر ضلع لسبیلہ سے ہوتا ہوا دادو ضلع کے ریگستانی اور پہاڑی علاقے کاچھو سے گزر گر منچھر جھیل میں گاج ندی اختتام پذیر ہوتی ہے۔ گاج ندی مون سون کے موسم میں بھرپور موج مستی کے ساتھ جہاں جہاں سے گزرتی ہے وہاں اندھا دھند تباہی مچاتی ہے۔


گاج ندی بنیادی طور پر پہاڑی برساتی نالوں پر مشتمل ہے اور مختلف علاقوں سے چھوٹی چھوٹی ندیاں اس میں جب شامل ہونے لگتی ہیں تو گاج دریا جیسی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ جب گاج بہنے لگتی ہے تو کاچھو کے علاقے میں آباد چھوٹے چھوٹے شہروں اور دیہات کا کئی ماہ تک رابطہ کٹ جاتا ہے۔ جن میں واہی پاندھی، ٹنڈو رحیم خان، چھنی، حاجی خان، ہیرو خان، ڈرگھ بالا سمیت سیکڑوں چھوٹے چھوٹے دیہات ہیں جن کا زمینی راستہ کٹ جاتا ہے، لیکن گاج ندی میں شامل ہونے والی چھوٹی ندیوں کی بدولت کاچھو کا بارانی علاقہ خوش حال بھی ہوجاتا ہے۔ جب ندیوں کا ریلا پہلے گاج اور پھر منچھر جھیل میں داخل پوجاتا ہے اور کچھ دنوں میں جب سکون ہوجاتا ہے تو خشک زمین پر ہریالی کے دن شروع ہوتے ہیں۔ لوگ زمینوں پر کاشت کاری شروع کردیتے ہیں۔


یہاں پر جُوار، باجرہ، گوار، تِل اور دیگر فصلیں اگائی جاتی ہیں۔ تھر کے بعد کاچھو سندھ کا دوسرا بڑا صحرائی خطہ ہے۔ جس کی سرحدیں جام شورو اور دادو سے گزر کر لاڑکانہ اور قمبر کے اضلاع کو چھُوتی ہیں۔ بارشوں کے بعد ان تمام علاقوں کی بارانی زمینیں لہلہاتی کھیتوں سے سرشار ہوجاتی ہیں۔
سندھ میں گذشتہ روز جوں ہی مون سون کی بارشیں شروع ہوئیں، گاج ندی کی مستی بھی شروع ہوگئی، گاج کی مستی اپنے ساتھ تباہی کا ساز و سامان بھی لے کر آگئی۔
گذشتہ روز گاج ندی کا بہائو پچیس فٹ تھا جو آہستہ آہستہ کم ہورہا ہے لیکن پچیس فٹ کے ریلے نے ذکر شدہ تمام علاقوں میں تباہی مچادی۔ جوہی سے واہی پاندھی جانے والا پُل ٹوٹ گیا، جس کی وجہ سے سیاحتی مقام گورکھ ہل اسٹیشن کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔


دوسری جانب ٹنڈو رحیم اور چھنی جانے والا راستہ بھی زیر آب آگیا ہے۔ چھنی شہر کے بارے میں تو یہ اطلاعات ہیں کہ گاج ندی کا پانی شہر میں داخل ہوگیا ہے حالانکہ یہ چھوٹا سا شہر پہاڑی کے اوپر آباد ہے۔ گاج ندی کا پانی تیزی سے منچھر جھیل میں داخل ہورہا ہے۔ سندھ میں حکمرانوں کی بدانتظامیوں کی وجہ سے ایل بی او ڈی اور آر بی او ڈے کے منصوبوں کے بدولت تباہی سے دو چار ایشیا کی سب سے بڑی جھیل منچھر کو گاج ندی مون سون کے موسم میں نئی زندگی بخشتا ہے۔ جھیل بھر جانے کے بعد پھر سے ماہی گیروں کی کشتیاں جھیل کو رونق بخشتی ہیں۔ پھر سے جھیل مچھلیوں سے بھر جاتی ہے اور منچھر جھیل میں زندگی کی سرگرمیاں لوٹ کر آتی ہیں۔ اس طرح گاج ندی جو اپنے ساتھ تباہی کا ساز و سامان لاتی ہے تو خوش حالی بھی لاتی ہے، لیکن محکمہ آب پاشی کی نااہلی کی وجہ بچائو بند یا ایف پی بند مضبوط نہیں ہوتے، جس وجہ سے ہر سال تحصیل ہیڈ کوارٹر جوہی کے ڈوبنے کا خطرہ رہتا ہے۔ گذشتہ برس بھی جوہی شہر میں پانی داخل ہوگیا تھا، نہروں کو شگاف پڑتے ہیں اور نہری علاقوں میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر مشتمل فصلیں ڈوب جاتی ہیں۔


ابھی گذشتہ برس کے زخموں پر مرہم ہی رکھے جارہے تھے کہ پھر سے گاج ندی کی تباہ کاریوں کا موسم شروع ہوگیا۔ ہم عجیب ملک کے باشندے ہیں کہ دریائے سندھ کے پانی ضائع ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں، لیکن گاج ڈیم کا منصوبہ کئی برس بیت جانے کے باوجود مکمل نہ ہوسکا۔ گاج ندی پر ڈیم کی تعمیر ایک طویل کہانی ہے، تین حکومتیں تبدیل ہوگئیں لیکن یہ کہانی ابھی تک جاری ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک دو تین نہیں کئی بار نوٹسز کے باوجود یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا۔ موجودہ حکومت میں بھی وہی صورت حال ہے جو سابق حکومتوں میں تھی۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔