افغانستان کا ماضی حال اور مستقبل

شہریار شوکت

امریکا افغانستان سے نکل چکا ہے۔ امریکا میں نائن الیون کے واقعے کی یاد میں تقریب بھی منعقد کی گئی، جس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شرکت نہیں کی۔ ایک اور تقریب میں ڈونلڈٹرمپ نے کہا کہ ہم نے افغانستان میں ہتھیار ڈال دیے اور یہ دھبہ ہمارے ملک پر ہمیشہ رہے گا۔ امریکا کے جانے کے بعد اب افغانستان کیسا ہوگا یہ دیکھنا باقی ہے۔

سال 1970 سے 1979 تک افغانستان امن کا گہوارہ تھا، کابل دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا تھا، اس وقت کابل پر کمیونسٹ حکومت کا دور تھا۔افغانستان کے دیگر شہروں سے کابل کے لوگوں کا طرز زندگی  خاصا بہتر تھا لیکن پورے  افغانستان میں امن کے اعتبار سے حالات بہت بہتر تھے۔ کابل میں خواتین بازاروں میں آزادانہ گھومتی تھیں جن کا لباس عام طور پر مغربی طرز کا ہوتا تھا۔ افغانستان کے دیگر شہروں میں مذہبی رجحان بڑھ رہا تھا جو کہ آہستہ آہستہ کابل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔ لوگ کمیونسٹ حکومت کے خلاف ہو رہے تھے اور لوگوں پر مذہبی رنگ غالب آرہاتھا جو کابل حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا ۔

1979 میں سوویت فوجوں نےکمیونسٹ حکومت کی مدد کے نام پر کابل پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ دس سال جاری  رہی۔ دنیا میں امن کا قصیدہ گانے والوں کے مسلط کردہ اس جنگ نے کابل کو کھنڈرات میں بدل دیا ۔ افغانستان کے عوام چونکہ کمیونسٹ نظام سے تنگ تھے لہذا انہوں نے ان افراد کے آگے بھی ہتھیار نہ ڈالے۔ یہ جنگ افغانستان کی عوام نے خود لڑی ۔ یہ جنگ اسلام اور کفر کے درمیان ایک بڑا معرکہ ثابت ہوئی۔ اس جنگ میں خواتین بچے جوان بوڑھے سب سوویت فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔افغانستان کے شہریوں نے اس جنگ میں دنیا کے سپر پاور کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ افغان مجاہدین نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ دنیا بھی اس جنگ پر حیران تھی کیوں کہ ایک جانب جدید اسلحہ تھا جبکہ دوسری جانب ٹوٹے پھوٹے ہتھیا اور جذبہ ایمانی تھا، لیکن جیت افغان عوام کی ہی ہوئی۔ اس وقت جنرل ضیاء کی حکومت تھی ، افغان عوام کے ساتھ انکی مدد بھی شامل تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان پناہ گزین پاکستان آئے اور پاکستان نے ان کو چھت دی، روزگار دیا اور پاکستان میں افغان مہاجرین کی بستیاں آباد ہوئیں گو کہ ان بستیوں میں بعد ازاں جرائم پیشہ افراد نے بھی پناہ لی اور پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کیں۔ اس جنگ کی پشت پناہی امریکا بھی کررہا تھا۔ امریکا بھی چاہتا تھا کہ دنیا سے سویت یونین کا راج ختم ہو اور امریکا سپر پاور کا تاج پہنے۔ اس جنگ میں افغان مجاہدین کو امریکا پاکستان سعودی عرب اور چین کی مدد حاصل تھی۔ کمزور جنگی سامان کے ساتھ شروع ہونے والی اس جنگ کو جلد انجام تک پہنچانے کیلئے امریکا نے افغان مجاہدین کو جدید ہتھیار فراہم کئے۔ سال1989 میں کمیونسٹ حکومت کی مدد کو آنے والے سویت فوجی افغانستان سے بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ جہاں اس جنگ نے افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا وہیں سویت یونین کو بھی بے پناہ نقصان ہوا۔ جیسے ہی سوویت افواج افغانستان سے نکلیں روس خود ایک ایسے اندرونی انتشار کا شکار ہوا جس سے روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ 1992سے 1996 تک افغانستان خانہ جنگی کا شکار رہا۔ مجاہدین کے گروہ جو سویت یونین کیخلاف ایک تھے اب وہ آپس میں لڑ رہے تھے۔مجاہدین کے اکثر گروہ اب افغان طلبان میں تبدیل ہوچکے تھے۔افغان طالبان نے اقتدار میں آکر اپنے طور پرکابل پر حکومت کی۔ اس دور میں اسلامی نظام نافذ کیا گیا۔ یہ دور مکمل اسلامی دور تھا لیکن اس دور میں نافذ کردہ کچھ قوانین شریعت کی رو سے درست نہ تھے ،اسلام لڑکیوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کا درس دیتا ہے لیکن اس دور میں دس سال سے زائد عمر کی لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی تھی۔ افغان طلبان نے شریعت کے نفاذ میں انتہائی سختی سے کام لیا ۔اس دور میں ہر مرد کے لیے ڈاڑھی ضروری تھی، خواتین کے لیے برقعہ پہننا لازمی تھا۔ خواتین بازاروں میں نہ ہونے کے برابر نظر آتی تھیں۔ ملک بھر میں ٹی وی ،موسیقی اور سنیما گھروں پر پابندی تھی۔ واضح رہے کہ  اس دور میں افغانستان میں جرائم کی شرح صفر فیصد تھی۔ سال دوہزار ایک میں امریکا کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا۔ امریکا نے اس حملے کی تمام تر ذمہ داری افغان حکمرانوں پر ڈال دی۔ بظاہر یہ الزام درست معلوم نہیں ہورہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ شاید امریکا افغانستان پر حملے کا بہانہ تلاش کررہا ہے، تاکہ وہاں اسلامی نظام کو ختم کیا جاسکے اور پھر وہیں سے دیگرمسلمان  ممالک کی جانب لشکر کشی کی جائے اور تیل و معدنیات کے ذخائر پر قبضہ کیا جائے جو کہ بعد میں امریکا کے طرز عمل سے ظاہر بھی ہوا۔

نائن الیون کے واقعے نے پوری دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ افغان حکمران امریکا کے سامنے ہتھیار ڈالنے کو تیار نہ تھے۔ وہ نہ ہی ان کے مطالبات تسلیم کرنے پر راضی تھے ۔امریکا نے اپنے اتحادی ممالک کی افواج کے ہمراہ افغانستان پر حملہ کردیا۔ اس حملے میں ظلم کی داستانیں رقم کی گئیں۔ کئی افراد کو زندہ جلایا گیا۔ ان کے گلے کاٹے گئے اور کئی افراد کو صرف مسلمان ہونے کی بنیاد پر بدنام زمانہ جیل میں ڈال دیا گیا جہاں ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ مخالف مسلمان قائدین کو بھی نشانہ بنایا۔ جنرل قذافی، صدام حسین اور مصری صدر کو بھی نشانہ بنایا۔ امریکا کی ایما پر یہ کوشش ترکی میں بھی کی گئی جسے ناکام بنا دیا گیا۔ حیران کن امر یہ تھا کہ امریکا اس کے اتحادیوں اور آلہ کاروں کے ان تمام اقدامات پر اقوام متحدہ تو خاموش تھی ہی لیکن مسلم ممالک بھی بھیگی بلی بنے رہے۔ امریکا نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کیا تو دسمبر 2001 سے 29ستمبر 2014 تک امریکی نواز حامد کرزائی افغانستان کے صدر رہے۔ امریکا نے افغانستان پر پیسہ لگایا، افغان طلبہ کے دور کی سختیاں ختم کیں۔ خواتین کو سیکیولر ممالک والی آزادی دی۔ افغانستان میں ادارے بنائے گئے، افغانستان کی فوج بنائی گئی ساتھ میں سیاسی سرگرمیاں بھی کی گئیں۔ امریکا نواز افغان حکومت اب پاکستان مخالف حکومت بن چکی تھی جس کے باعث بھارت نے وہاں سرمایہ کاری شروع کی۔ کرزئی حکومت کے بعد 2021 تک اشرف غنی افغانستان کے صدر رہے۔ یہ حکومت بھی امریکا نواز تھی۔ ان کے دور میں افغانستان کی زمین اور ادارے پاکستان کے خلاف بھارت کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہے۔ کئی بار افغانستان سے پاکستان پر حملہ بھی کیا گیا اور پاکستان دشمنوں کو افغان سرزمین پر جگہ بھی دی گئی۔ بھارت کو ایسا لگ رہا تھا کہ اب افغانستان اس کا ایک صوبہ بن چکا ہے۔ایک طرف تو بھارت کی افغانستان میں سرمایہ کاری جاری تھی دوسری جانب طالبان کی کارروائیاں بھی ختم نہ ہوئیں ۔امریکی فوجیوں اور افغان طالبان کے درمیان گوریلا جنگ بیس سال جاری رہی۔اس تمام تر صورتحال میں افغان طلبہ امریکا کے خلاف سرگرم عمل رہے ۔امریکا کو جانی اور مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔امریکا کھربوں ڈالر لگانے کے باوجود افغان عوام کو سیکولیرزم او ر مادر پدر آزادی کا قائل نہ کرسکا ۔عوام  اب  بھی امریکا کیخلاف لڑنے میں مصروف تھے ۔20 سالہ طویل جنگ کے بعد امریکا نے افغانستان ست جانے کا فیصلہ کیا ۔امریکا کے انخلا کی بات سامنے آتے ہی افغانستان میں ایک نئے بحران نے جنم لیا۔کئی سال سے جاری امریکا اور طالبان مذاکرات رکے اور افغان طلبہ نے کابل پر چڑھائی شروع کردی۔طلبہ کی چڑھائی شروع ہوئی تو اشرف غنی افغانستان سے فرار ہوگئے۔اگست دوہزار اکیس میں طلبان نے افغان صدارتی محل کر قبضہ کیا۔اور آگے برھتے چلے گئے۔سویت یونین کے بعد امریکا کو بھی منہ کی کھا کر افغانستان سے جانا پڑا۔افغانستان کے موجودہ حکمران ماضی سے بہت کچھ سیکھ کر واپس آئے ہیں ۔یہ حکمران چین اور پاکستان سے بہتر تعلقات قائم کریں گے اور ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کریں گے  جس کا سب سے زیادہ نقصان امریکا کے بعد بھارت کو ہوگا ۔افغانستان میں اب شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے عوام کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ دنیا اب افغانستان اور افغان طلبہ کا نیا چہرہ دیکھے گی۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔