دل سے دل تک: سیلاب کے بعد کا سماں ہے

خطے میں اضطراب ہے۔ ایسا اضطراب جو ڈھکا چھپا بھی نہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے طوفان سے قبل کا سکون ہے اور تمام فریق اسے محسوس کررہے ہیں۔ اپنی اپنی حکمت عملی اختیار کررہے ہیں اور اپنے مفادات کو طوفان سے محفوظ رکھنے کی کوششوں میں لگ گئے ہیں۔

سب کی نظریں اسی خطے پر مرکوز ہیں، جسے زمانہ قدیم میں خراسان کہا جاتا تھا اور جس کے بارے میں احادیٹِ نبوی ﷺ کے ذخیرے میں بہت سی پیش گوئیاں پائی جاتی ہیں۔ خراسان یعنی افغانستان اور ملحقہ علاقے۔ افغانستان ویسے تو عمومی طور پر پوری دنیا کا بھی مسئلہ ہے لیکن بنیادی طور پر چار ممالک یعنی افغانستان، پاکستان، ہندوستان، امریکا کا تو باقاعدہ دردِ سر ہے۔ ان میں تین ممالک افغانستان، پاکستان، ہندوستان تو اسی خطے میں واقع ہیں۔

ذرا اپنے ہی ملک کے حالیہ واقعات دیکھیں۔ قومی اسمبلی کی سلامتی کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس منعقد ہوا ہے، ج میں چوٹی کے عمائدین مملکت شریک تھے اور جہاں انہیں افغانستان، مقبوضہ کشمیر اور داخلی مسائل کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ خبروں کے مطابق فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں نے پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں اور دیگر ارکان کو کئی کھٹے تک بریفنگ دی اور سوال جواب کا سیشن بھی ہو، جس میں اہم وفاقی وزرا موجود تھے، تاہم وزیراعطم اس اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ انہیں معاملات پر مزید اجلاس منعقد ہوں گے۔ انہیں دنوں متواتر کئی انٹرویوز میں کشمیر، امریکا اور چین کے معاملات پر کھل کر بات کی۔ یہ دو ٹوک مؤقف، جس میں کوئی ابہام نہیں تھا، ملک بھر میں بہت سراہا گیا اور جرأت مندانہ قرار دیا گیا، لیکن اس سے قطع نظر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان دنوں مسلسل ایسے بیانات اور قومی اسمبلی کمیٹی برائے سلامتی کے اجلاس کی کیا ضرورت پیش آئی؟ صاف ظاہر ہے کہ بہت سے اہم فیصلوں کا وقت سر پر ہے اور آئندہ کے لیے حکمت عملی بنانی ضروری ہے۔ سیاسی اور فوجی قیادت کو یہ نظر آرہا ہے کہ افغانستان کے بارے میں کسی بھی غلط فیصلے کا اثر سب سے پہلے پاکستان پر پڑے گا۔

افغانستان میں تیزی سے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ طالبان نے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے ساتھ ساتھ بہت سے تیز رفتار پیش قدمیاں کی ہیں، لیکن کسی بڑے شہر پر قبضے سے گریز کیا ہے، تاکہ غیرملکی فوجوں کی واپسی میں تاخیر کا جواز پیدا نہ ہوسکے۔ بگرام کا فوجی ہوائی اڈا بیس سال بعد کابل حکومت کے حوالے کردیا گیا ہے۔ امریکی جاسوسی ادارے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ غیرملکی انخلا کے بعد کابل چند ماہ بھی مشکل سے نکال سکے گی۔ پہلے اندازوں سے بھی کم وقت۔ افغانستان کے چار سو اکیس میں سے نوے سے زائد اضلاع طالبان کی مکمل گرفت میں جاچکے ہیں، جن میں حیران کن طور پر تاجکستان کے سرحدی اضلاع بھی ہیں۔ وسطی افغانسستان کے اہم شہر غزنی پر طالبان کی یلغار جاری ہے۔ غزنی قندھار شاہراہ ان کا ہدف ہے اور علاقے میں شدت کی لڑائی ہورہی ہے۔ افغان حکومت کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہےکہ سرکاری فوج بد دل بھی ہے اور خائف بھی۔ بے شمار سپاہی ہتھیار پھینک دینے پر طالبان کی طرف سے عام معافی کو غنیمت سمجھ رہے ہیں اور ہتھیار اور فوجی گاڑیاں طالبان کے قبضے میں جارہی ہیں۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا دورہ امریکا بظاہر بے سود رہا ہے اور انہیں مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں مل سکی۔ بظاہر کابل حکومت اب سالوں کی نہیں، مہینوں کی مہمان ہے۔
کی افغانستسان ایک نئی خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے؟ افغان مہاجرین کی تازہ کھیپ ہمسایہ ممالک میں دھکیلی جائے گ؟ یاد رہے کہ اس سال کے شروع سے مہاجرین تاجکستان جانا شروع ہوچکے ہیں۔ پاکسستان نے سرحد پر جو باڑھ لگائی ہے وہ مہاجرین کی ایک نئی لہر کے معاملے میں کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کا نوے فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود پاسکتان کے لیے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو سرحد سے دور رکھنا آسان نہیں ہوگا۔ بظاہر ایک نئی خانہ جنگی کے خاتمے کی آسان ترین صورت یہ ہوگی کہ کابل حکومت خود کو مقابلے کے قابل نہ پا کر ہتھیار ڈال دے، لیکن کیا اشرف غنی جو ہٹ دھرم طبیعت کے لیے مشہر ہیں اور عبداللہ عبداللہ جو اپنی طالبان دشمنی کے لیے مشہور ہیں، یہ قدم اٹھا سکیں گے؟ یہ امکان ہی نہیں کہ طالبان کابل حکومت کے سامنے سپر انداز ہوجائیں گے۔ اتنی طویل جدو جہد کے بعد جب اصل طاقتور حریف یعنی امریکا اور نیٹو افواج کو انہوں نے انخلا پر مجبور کردیا گیا ہے تو وہ کمزور دشمن کے سامنے اپنے مفادات سے دست کش کیسے ہو جائیں گے؟ اس لیے وہ خانہ جنگی جو سر پر کھڑی ہے، اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے طالبان کا افغانستان پر مکمل قبضہ۔

طالبان کے لیے تمام تر تحفظات کے باوجود پاکستان میں پسندیدگی کیوں پائی جاتی ہے؟ طالبان اپنی شدت پسندی اور مختلف فہم دین کے باوجود عوام، ارباب حکومت اور عسکری حلقوں میں بہتر کیوں سمجھے جاتے رہے ہیں؟ اس کے ایک سے زیادہ عوامل ہیں۔ تنہا امریکا دشمنی کے زاویے سے دیکھیں تو یہ جذبات مسلمانوں تک محدود نہیں۔ یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی جگہ امریکی شکست پر دنیا بھر کے لوگوں میں خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ یاد کیجیے جب ویت نام میں امریکی فوجوں کو ویت کانگ گوریلوں کے ہاتھوں شکست کھا کر نکلنا پڑا تھا۔ سامراج دشمنی مذہبی معاملات سے الگ ایک معاملہ ہے۔ طالبان کے علاوہ ہر کابل حکومت کی پاکستان دشمنی بھی اس کی بہت بڑی وجہ ہے اور یہ قیام پاکستان سے تاحال چلی آتی ہے۔ طالبان کے ذریعے احیائے اسلام کا خواب دیکھنے والے بھی پوری دنیا میں ہیں اور ان کی تعداد بہت بڑی ہے۔ سو یہ تمام عوامل طالبان کو پاکستانیوں کے لیے دوسروں سے بہتر بنادیتے ہیں۔ میرا ایک شعر ہے:

دل سے تری یاد اتر رہی ہے

سیلاب کے بعد کا سماں ہے

سیلاب کے بعد پانی اترتا ہے تو دور دور تک ایسا منظر چھوڑ جاتا ہے جس کے لیے تباہی اور بربادی کے الفاظ کم پڑتے ہیں۔ بنیادوں سے منہدم عمارتیں، گرے پڑے درخت، جاپجا پڑی ٹہنیاں، لاشیں، مردہ جانور، لق و دق بے آب و گیاہ میدان، دلدل، تالاب، جوہڑ اور حشرات الارض۔ افغانستان سے ایک شدید سیلاب عشروں تک گزرتا رہا۔ ایک قسم کا سیلاب ختم ہوا تو دوسری قسم کے ریلے آن پہنچے۔ اب یہ پانی بھی اتر رہا ہے۔ عشروں سے برباد شدہ زمین کب سانس لینا شروع کرے گا؟ روئیدگی کب بحال ہوگیِ؟ درخت کب اکیں گے؟ عمارتیں کب سربلند ہوں گی؟ اور ہونٹو پر مسکراہٹ کب جگہ بنائے گی؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ دنیا ڈر رہی ہے کہ یہ سکوت ایک نئے طوفان نئی خانہ جنگی کا پیش خیمہ نہ ہو۔ ایسی خانہ جنگی، جسے ختم کروانے کے لیے کوئی ملک تیار ہی نہ ہو۔ یہ بڑا خطرہ ہے اور اگرچہ تمام افغان گروہ اس پر بند باندھنے کے ذمے دار ہیں، لیکن طبالبان اس وقت افغانستان کا بالا تر گروہ بھی ہیں اور غیرملکی فورسز کے خلاف مزاحمت کے علم بردار بھی، چنانچہج غیرملکی انخلا کے بعد افغانستان کی سب سے بڑی ذمے داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔ اب تک عسکری معاملات میں وہ اپنی مرضی کی پالیسی لے کر چلتے رہے ہیں اور یہی درست بھی سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن افغانستان میں اگر وہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انہیں ان صائب الرائے علما اور دانش مند حلقوں سے مشاورت لازمی کرنا ہوگی، جو ان سے بہتر دینی اور انتظامی فہم رکھتے ہیں، جنہیں وہ با اعتماد سمجھتے ہیں اور جن کا ان پر اثر رسوخ بھی ہے۔ یہ وقت ہے کہ طالبان صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے افغانستان میں استحکام پیدا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ کیا یہ توقع غلط ہے؟ کیا یہ توقع پوری ہوسکے گی؟

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔