کیا تعلیمی خلا اب پر ہوسکے گا ؟

شہریار شوکت

 

کورونا کی وبائی صورتحال کے سائے تاحال ملک پر چھائے ہوئے ہیں۔ ایک کے بعد ایک لہر۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو کورونا نے دنیا کے ہر ملک کو متاثر کیا ہے اور لاک ڈاون نے مستحکم معیشت والے ممالک کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔

ایسے میں پاکستان جیسے ملک کے لئے اس صورتحال سے نمٹنا آسان نہیں۔ اللہ کی ذات کا خاص احسان ہے کہ کورونا کی وبائی صورتحال نے پاکستان کو اس طرح اپنی لپیٹ میں نہیں لیا جیسے دنیا کے دیگر ممالک میں تباہی مچائی۔ پاکستان میں صورتحال اس سے بھی بہتر ہوسکتی تھی اگر صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنے عوام کا اعتماد باحال رکھتیں اور عوام اسے پروپیگنڈا سمجھنے کے بجائے ایک حقیقت سمجھ کر احتیاط کرتے۔ کورونا نے جہاں کاروباری اور ملازمت پیشہ افراد کو مشکل میں ڈالا، وہیں اس سے زیادہ متاثر تعلیم کا شعبہ ہوا۔ایک جانب تو کئی پرائیویٹ اسکول عمارت کا کرایہ اور اساتذہ کی تنخواہیں نہ دینے سے بند ہوگئے، دوسری جانب اساتذہ نے اس شعبے کو خیر باد کہہ کررزق حلال کے دیگر ذرائع تلاش کرلئے، اس سے طلبہ کا شدید نقصان ہوا اور ملک میں تعلیمی بحران کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ یوں تو پوار ملک ہی اس سے متاثر ہوا لیکن سندھ پر کورونا نے کچھ خاص نظر کرم رکھی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق سندھ میں پورا سال صرف 22 دن تعلیمی ادارے کھل سکے۔ صوبے بھر میں بازار بھی کھل گئے، جلسے جلوس بھی زور و شور سے جاری ہیں، حتی’ کہ سابق وزیر تعلیم سعید غنی صاحب طلبہ تنظیم کے کارکنوں کے جمع کرکے کہ ان سے اہم امور پر تبادلہ خیال کرتے بھی دکھائی دئے، لیکن تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت نہ دی۔ اعدادو شمار دیکھے جائیں کہ پاکستان میں 18 سال سے کم عمر کتنے افراد کو کورونا ہوا تو شاید ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہو۔ چلیں حکومت کی یہ حکمت بھی مان لیں کہ بچے حساس ہوتے ہیں جلد بیمار ہوسکتے ہیں تو جامعات کو کیوں بند رکھا گیا؟ جامعات میں پڑھنے والے طلبہ تو عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں جہاں بیماریوں کے خلاف مزاحمت مشکل نہیں ہوتی؟

پھر ایک عجیب فیصلہ یہ لیا گیا کہ تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں تو بند رہیں گی لیکن امتحانات لئے جائیں گے۔ یہ صورتحال سندھ کے طلبہ کیلئے انتہائی دشوار ثابت ہوئی۔ امتحانات میں دباو کا شکار طلبہ پر اس وقت پہاڑ گرا دیا گیا جب یہ فیصلہ ہوا کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کے کالجوں اور جامعات میں داخلے کے لئے ہونے والا ٹیسٹ اپنے وقت پر اور پورے ملک میں ایک ہی وقت میں ہوگا۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے تحت ہونے والے ٹیسٹ کا ملک بھر میں 30 اگست سے آغاز ہورہا ہے۔ یہاں سندھ کے طلبہ کے ساتھ زیادتی بلکہ ظلم ہوگا۔تعلیمی اداروں کی طویل بندش کے باعث جہاں ان طلبہ کی امتحانی کاکردگی متاثر ہونے کا خدشہ ہے وہیں ان طلبہ کو داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کا موقعہ بھی نہیں ملا اور ٹیسٹ انہیں پورے ملک کے طلبہ کے ساتھ دینا ہوگا۔ سندھ سرکار نے نہ تو اس پر کوئی آواز اٹھائی نہ ہی اپنے صوبے کے طالب علموں کو کوئی سہولت دی۔ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے پریشان طلبہ کے سروں پر عملی امتحانات کی تلوار بھی لٹکا دی گئی ہے۔

بات صرف اسکولوں کی بندش یا انٹری ٹیسٹ کے مسائل تک محدود نہیں، نئے وزیر تعلیم سندھ نے اسکول مالکان سے مذاکرات کے بعد تعلیمی ادارے کھونے پر آمادگی کا اظہار تو کردیا ہے لیکن سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی نہم اور دہم کی کتابیں تاحال مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ گزشتہ تعلیمی سال میں حیاتیات، کمپو ٹر اور انگریزی کی نئی کتب مارکیٹ میں آئی تھیں۔ اس سال نصاب مں تبدیلی کے حوالے سے کوئی پالیسی واضح نہیں کی گئی، لیکن نہم جماعت کی فزکس کی کتاب پی ڈی ایف فارمیٹ میں گردش کررہی ہے۔ مارکیٹ میں نئی یا پرانی کوئی کتاب دستیاب نہیں۔ اس حوالے سے والدین طلبہ اور اساتذہ شدید تذبذب کا شکار ہیں۔ میٹر ک کے نصاب میں تبدیلی کے حوالے سے بھی کسی واضح پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کتابوں کی اشاعت میں تاخیر من پسند افراد کو نوازنے کے باعث ہے۔ جیسا کہ ذکر کردیا گیا ہے کہ سندھ میں اس سال تعلیمی ادارے صرف 22 دن کھلے ہیں اس کے بعد اگر ا کتب دستیاب نہ ہوئی تو کورس کی تکمل انتہائی مشکل عمل ہوگا۔

اب نظر ڈآل لیجئے اس شعبے پر جس کے تحت طلبہ کو ہنر مند بنا کر ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ وفاق اور سندھ حکومت کے تحت ہونے والے تکنیکی کورس بھی تعلیمی اداروں کی بندش کے باعث رکے ہوئے ہیں۔ مٹروک سے فارغ طلبہ کے لئے ان کورسز کا اس سال آغاز ہی نہیں کیا گیا۔ پچھلے کورس کے طلبہ کا کہنا ہے کہ انہیں دو ماہ پڑھایا گیا ہے، اس کے بعد طویل عرصہ تعلیمی ادارے بند کردئے گئے، جس کے باعث ہمارا وقت برباد ہورہا ہے اور طلبا سیکھا ہوا کام بھی بھول رہے ہیں۔ طلبہ نے یہ شکوہ بھی کیا کہ اس دوران ہمیں صرف ایک ماہ کا وظیفہ دیا گیا ہے۔

یہ تمام فیصلے اور حالات یہ واضح کررہے ہیں کہ تمام تعلیمی اداروں کا حال جلد وہی ہوجائے گا جو گاوں دیہات میں سرکاری اسکولوں کا ہے۔ کہیں عمارت نہیں، کہیں اساتذہ نہیں اور جہاں دونوں ہیں، وہاں طالب علم نہیں۔ تعلیم کی اس تباہی کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ہماری آنے والی نسلوں میں کیا اس تعلیمی خلا کو پر کیا جاسکے گا یا ہمارے صوبے کے طالب علم باقیوں سے پیچھے ہی رہیں گے؟ ایسی پالیسی جو طلبہ کے مستقبل کی تباہی کی ذمہ دار ثابت ہوگی، کیا یہ وفاق او رصوبے کی مشترکہ حکمت عملی ہے یا بین الاقوامی ایجنڈا؟

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔