معاشرے پر پاکستانی ڈراموں کے منفی اثرات
پاکستانی معاشرے میں جہاں ہمیں روز ایک نئے مسئلے کا سامنا ہے وہاں یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ کیا ہمارے پاس اتنا وقت ہے کے ہم لوگوں کو ان مسائل سے آگاہ کریں یا پاکستانی ڈراموں کی جھوٹی دنیا دیکھ کر ان تمام چیزوں کو نظر انداز کردیں؟
ڈراموں میں دلکش گھر
محلات جیسے مکانات ہماری جھونپڑیوں کو کیوں کھا گئے ہیں۔ متوازی ڈراما کیوں کچل دیا گیا ہے۔ ہمارے ڈراموں میں آج کل انڈین فلموں جیسے رقص اور اداؤں کی شروعات ہوئی ہے۔ چند سپر ہٹ ڈراموں کے نام پیش ہیں، ان میں دیوانگی، مہر پوش، راز الفت ہیں جنہوں نے نوجوان نسل کو بھٹکانے میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ گزشتہ شب کسی نئے ڈرامے کا ٹریلر دیکھا تو شرم سی آئی۔ توقع یہ تھی کہ پاکستانی ڈرامہ پی ٹی وی ڈرامے کی روایت کو فروغ دے گا، لیکن سیاسی پولرائزیشن کے ساتھ ہی اظہار کی تمثیلی خرافات نے اسکرپٹ، اداکاری اور موضوع کی فرسودگی اور آوارگی نے قوم کو مایوس کیا ہے۔
ایک طرف سیاست دانوں نے قوم کو بے منزل کردیا اور دوسری جانب ٹی وی ڈراموں میں علم، فکر، سوچ، تخلیق اور حقیقت پسندی کی جگہ گڈے گڑیا کی دلربا کہانیوں نے زور پکڑلیا۔
ماہرینِ فن اداکاری اور ڈرامے کو سماجی آئینہ کہتے ہیں۔ لیکن ڈرامہ نویس خود ہی اسکرین کی عورت کو دو ٹکے کی عورت کا نام دیتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب پی ٹی وی ڈرامے کے اسکرپٹ میں کوئی اخلاق سے گرا ہوا لفظ شامل نہیں ہوتا تھا۔
کہتے ہیں دنیا آگے جاچکی ہے، گلوبلائزیشن نے نگاہ کو آفاقی بنادیا ہے تو اداکاری کو کیوں حسیناؤں اور وجیہہ ہیروز نے محبت کی دیوانگی سے دوچار کردیا ہے۔ ڈرامے آج کے پاکستان کی معروضیت سے دور کیسے چلے گئے۔ کیا ہم آج بھی نوٹنکی دور میں جی رہے ہیں؟
بقول شاعر
زندگی صرف محبت نہیں کچھ اور بھی ہے
زلف و رخسار کی جنت نہیں کچھ اور بھی ہے
اب ایسا لگتا ہے کہ ہماری ڈراما انڈسٹری ہندوستانی ڈراموں سے متاثر ہے۔ سب سے خراب بات یہ ہے کہ ہمارے ٹی وی چینلز ایسی چیزیں دکھاتے ہیں جو ہماری ثقافتی اور معاشرتی اقدار کے براہ راست تضاد میں ہیں۔ بہرحال ، میڈیا کا مواد اسی پر مبنی ہے کہ ناظرین کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ لہذا اگر ناظرین اپنے حق میں فیصلہ کریں اور اگر وہ کچھ چینلز یا کچھ پروگراموں کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو اس کی درجہ بندی میں کمی ہوگی۔