پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج کی برسی خاموشی سے گزر گئی
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج کون تھے؟ پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج پاکستان کی قابلِ فخر درس گاہ جامعہ کراچی کے شعبہ علومِ اسلامی میں فقہ و تفسیر قرآن کریم کے مایہ ناز استاد تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج بحرِ علم کے شناور اوربالخصوص اپنے متعلقہ مضامین پر کامل دست رس رکھتے تھے۔ پیچیدہ ومُغلق فقہی مسائل ہوں یا دقیق و مشکل تفسیری مقامات و نکات، آپ اپنی دقیقہ سنجی اور نکتہ رسی کے تمام ساز و سامان بروئے کار لاکر علم و فن کی ہر الجھی ہوئی گتھی کو نہایت ہنرکاری سے سلجھانے پر ماہرانہ دست رس رکھتے تھے۔ ڈاکٹر محمد شکیل اوج یکم جنوری 1960ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی تعلیم کی طرف مائل رہے اور یہی وجہ ہے کہ تعلیمی منازل تیزی سے طے کر تے رہے۔ 2000ء میں انھوں نے جامعہ کراچی سے ڈاکٹریٹ آف فلاسفی کی سند حاصل کی۔ ان کے لا تعداد مقالے، مضامین اور دیگر تحاریر اخبارات و رسائل کی زینت بن چکے تھے اور ان کی نگرانی میں کم و بیش دس طلبا و طالبات پی ایچ ڈی کررہے تھے اورلگ بھگ اتنی ہی تعداد میں طالب علم ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرچکے تھے۔
عمر مختصر کے آخری زمانے میں ڈاکٹر صاحب جامعہ کراچی کے فیکلٹی کلیہ معارفِ اسلامیہ کے رئیس (ڈین) تھے اور سیرت چیئر، جامعہ کراچی کی ڈائریکٹر شپ بھی انہی کے حصے میں تھی۔ مختلف ٹی وی چینلز پر اسلامی معلومات کا ذخیرہ لٹانا اور ہر فورم پر علم کا خزانہ بکھیرتے رہنا ڈاکٹر صاحب کا ہی خاصہ تھا۔ اسی وجہ سے وہ اپنے طلبا و طالبات کے علاوہ عوام الناس میں بھی پسند کیے جاتے تھے۔ ہمارے گھٹن زدہ اور تنگ نظر ماحول میں ڈاکٹر صاحب ہوا کا تازہ جھونکا تھے جو نہ صرف طلبا و طالبات کو ترو تازہ رکھتے تھے بلکہ ان سے ملاقات کے بعد ان کی سوچوں کا رخ بھی تبدیل کر دیتے تھے۔ ڈاکٹر محمد شکیل اوج علوم تفسیر قرآن میں تحقیق و تصنیف کے حوالے سے معروف نام تھے۔ ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے، علم التفسیر کے موضوع پر تحقیقی مجلے اور ملک کے موقر مجلات میں ان کے مقالات نے مطالعات ِ قرآن میں بیش قیمت اضافہ کیا۔
ڈاکٹر اوج کے ہاں قرآن کریم کو ایسے بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل تھی جو اپنی دلالت میں قطعی ہے، اس لئے وہ کسی ایک آیت سے استدلال نہیں کرتے تھے بلکہ اس مضمون کو دوسری تمام آیات کا مطالعہ پیش کرتے ہوئے قرآن کریم سے ہی احکام کا استنباط کرتے تھے۔ اسی طرز استنباط سے وہ اکثر ایسے نتائج پر پہنچتے تھے جو فقہی مسلمات سے متفق نظر نہیں آتے۔ اوج صاحب نے مختلف موضوعات پر لکھا جن میں بہت سے عصری مسائل میں انہوں نے اپنے مخصوص طرز استدلال کی روشنی میں قرآنی آیات کے مطالعات پیش کئے۔ ان کی کتاب”نسائیات “ ڈاکٹر شکیل اوج کے ان فکری و نظری مضامین و مقالات پر مشتمل ہے جن میں انہوں نے خواتین کے عصری مسائل پر گفتگو کی ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں خواجہ غلام فرید کے مذہبی افکار، تعبیرات اور افکار شگفتہ کے نام سرفہرست ہیں۔
حکومت پاکسستان نے 14 اگست 2014 ء کو انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کرنے کا اعلان کیا تھا، اور اس کے اگلے ہی ماہ 18 ستمبر 2014ء کو کراچی میں نامعلوم قاتلوں نے ان کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ جامعہ کراچی میں علمی خدمات انجام دینے اور مجموعی طور پر دینی و علمی خدمات انجام دینے والے عظیم مدرس اور اسکالر ڈاکٹر محمد شکیل اوج کی برسی نہایت خاموشی سے گزر گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کی خدمات کے صلے میں سرکاری سطح پر نہ سہی، کم از کم یونیورسٹی آف کراچی انہیں یاد رکھتی اور ان کی چھٹی برسی پر جامعہ کی سطح پران کی یاد میں سیمینار کیا جاتا اور نئے طلبا و طالبات کو ان کے کام سے آگاہ کیا جاتا۔