ڈاکٹر رتھ فاؤ، پاکستان کی مسیحا
پاکستان میں جذام کے مریضوں کی طلسماتی مسیحا کی برسی کی مناسبت سے خصوصی تحریر
یورپ کے امیر ملک مشرقی جرمنی میں 9 ستمبر 1929ء کو پیدا ہونے والی رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ نے ہوش سنبھالا تو ان کا وطن شورش کی زد میں تھا۔ حالات بدستور مخدوش تھے، جس کی وجہ سے رتھ فاؤ کے خاندان کو دوسری جنگ عظیم کے بعد روس کے زیر تسلط مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ مغربی جرمنی آکر رتھ فاؤ نے میڈیکل کی تعلیم کا آغاز کی۔ 1949 میں "مینز” سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد زندگی میں رتھ فاؤ کے دل میں کچھ کرنے کی خواہش جاگی۔ یہ خواہش انہیں ایک مشنری تنظیم "دختران قلب مریم” تک لے آئی اور انہوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصد حیات بنالیا۔
انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنانے کے بعد ڈاکٹر رتھ فاؤ نے دو فیصلے انتہائی غیرمعمولی کیے۔ پہلا تو یہ کہ انہوں نے عملی زندگی میں مسیحائی کو اپنا پیشہ بنایا اور دوسرا یہ کہ علاج کے لیے انہوں نے امیر ترین ملک چھوڑ کر رہنے بسنے اور جذام کے مریضوں کے علاج کے لیے پاکستان کا انتخاب کیا۔ 1962ء سے ڈاکٹر رتھ فاؤ نے پاکستان میں اپنی زندگی کوڑھیوں (جذام کے مریضوں) کے لیے وقف کردی تھی۔ وہ ڈاکٹروں کی ایک انجمن "سرجنز سوسائٹی آف ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری” کی رکن تھیں۔ ان کی شبانہ روز کوششوں اور لگاتار کوڑھیوں کے علاج کے بعد 1996ء میں عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کو قابو میں قرار دے دیا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ جس وقت پاکستان آئی تھیں، اس وقت پاکستان کوڑھ کے مرض کے لحاظ سے ایشیا کے سرِ فہرست ممالک میں سے ایک تھا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ہوا کچھ یوں کہ انہوں نے 1958ء میں پاکستان میں کوڑھ کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی۔ کوڑھ ایک اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے، جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے۔ کوڑھی کے جسم سے شدید بدبو بھی آتی ہے۔ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ مرض اس وقت لا علاج تصور کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جس انسان کو کوڑھ کا مرض لاحق ہو جاتا، اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا۔ آخر کار مریض ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔
پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے۔ بات یہاں تک محدود نہ تھی، بلکہ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا۔ ملک بھر کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھ کے مریضوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں۔ یہ رہائش گاہیں "کوڑھی احاطے” کہلاتی تھیں۔ ان احاطوں کے اطراف سے لوگ اپنی آنکھیں، منہ اور ناک لپیٹ کر گزرا کرتے تھے۔ ان احاطوں میں رہنے والے مریضوں کے اہلِ خانہ اپنے مریض کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے ہی اندر کی جانب پھینک دیا کرتے تھے۔ اس کھانے کو احاطے میں موجود مریض جھاڑ پونچھ کر کھا لیا کرتے تھے۔ ملک کے تقریباً تمام شہروں میں "کوڑھی احاطے” قائم تھے۔ مریضوں کی تعداد اور مرض کے پھیل جانے سے پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جزام کے مریض سسک کر مر جاتے تھے۔ بعض اوقات تکلیف سے تنگ آکر بہت سے مریض خود کشی کر لیتے تھے۔
1960 کے دوران مشنری تنظیم نے ڈاکٹر ُتھ فاؤ کو پاکستان بھجوادیا۔ پاکستان پہنچ کر انہوں نے کوڑھ یا جذام کے مریضوں کی حالت دیکھی تو فیصلہ کیا کہ جب تک وہ ملک بھر سے کوڑھ کے مرض کا خاتمہ نہیں کرلیتیں، واپس نہیں جائیں گی۔ کوڑھ کے مریضوں کے علاج کے لیے حکومت نے کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن کے قریب میکلوڈ روڈ پر جگہ فراہم کردی، جہاں کوڑھیوں کی بستی قائم کی گئی۔ اسی بستی میں ڈاکٹر رتھ فاؤ نے چھوٹے سے فری کلینک کا آغاز کیا۔ یہ فری کلینک ایک جھونپڑی میں قائم تھا اور اسے "میری ایڈیلیڈ لیپرسی سینٹر” کا نام دیا گیا تھا۔ یہاں آنے والے جذام کے مریضوں کا نہ صرف علاج کیا جاتا، بلکہ مریضوں کے اہل خانہ کی مدد بھی کی جاتی تھی۔
اس مفت کلینک میں ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی ڈاکٹر رتھ فاؤ کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا۔مریضوں کی تعداد بڑھی اور یہ کلینک یہاں آنے والے مریضوں کے لیے ناکافی ہونے لگا تو 1963 میں ایک باقاعدہ کلینک خرید لیا گیا۔ اس نئے کلینک میں نہ صرف کراچی، بلکہ پاکستان بھر کے مریضوں کے ساتھ ساتھ افغانستان سے آنے والے جذامیوں کا علاج بھی کیا جانے لگا۔ جیسے جیسے مریضوں کی تعداد بڑھتی گئی، ویسے ویسے کراچی کے دیگر علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک قائم کیے جانے لگے۔ ان چھوٹے کلینکس میں تعینات طبی اور نیم طبی عملے کو تربیت بھی ڈاکٹر رُتھ فاؤ خود دیا کرتی تھیں۔
جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ڈاکٹر رتھ فاؤ نے پاکستان کے ان علاقوں کے دورے بھی کیے، جہاں اس وقت تک کوئی طبی ٹیم نہیں پہنچی تھی۔ انہوں نے وہاں بھی طبی عملے کو تربیت دی اور ان علاقوں کے مریضوں کے علاج کا بھی بندوبست کیا۔ جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے انہوں نے پاکستان کے علاوہ جرمنی سے بھی طیات جمع کیے۔ ان عطیات سے انہوں نے کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں پہلے سے موجود مختلف اسپتالوں میں جزام کے علاج کے مراکز قائم کیے۔ انہوں نے نیشنل لیپرسی کنٹرول پروگرام ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر رُتھ فاؤ، ان کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل کی بے لوث کاوشوں نے پاکستان سے اس موذی مرض کا خاتمے کو ممکن بنادیا۔ آخر کار صحت کے شعبے میں کام کرنی والی عالمی تنظیم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے1996 میں پاکستان جذام کے مرض پر قابو پا لینے والی ایشیائی ممالک میں شامل کرلیا۔
پاکستان میں جذام کے مریضوں کے لیے بے لوث خدمات دینے والی یہ عظیم شخصیت دس اگست 2017 کو کراچی میں انتقال کرگئی۔ ان کا انتقال شہر کے ایک نجی اسپتال میں ہوا۔ ان کی موت کے بعد انہیں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ کراچی کے گورا قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ محسن پاکستان ڈاکٹر رتھ فاؤ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ممتاز شخصیات ان کی قبر پر حاضری دیتی ہیں اور پھول چڑھاتی ہیں۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کے انتقال پر حکومت پاکستان نے ایک یادگاری سکہ بھی جاری کیا تھا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ نے نہ صرف جزام کے مریضوں کے لیے زندگی وقف رکھی، بلکہ انہوں نے اپنی سوانح حیات بھی تحریر کی۔ Serving the unserved نامی اس سوانح حیات کا اردو ترجمہ ڈاکٹر ضیا مطاہر نے "خدمت ہو مقصدِ حیات میرا” کے نام سے کیا ہے۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ نے مزید نو کتابیں بھی دردمندانِ انسانیت کے لیے تحریر کی ہیں، جن کے مطالعے سے خدمت کے جذبے کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔