وادی سندھ کی تہذیب کی معدوم زبان


عالمی ماہرین کی موجودہ تحقیق کے مطابق وادی سندھ کی تہذیب 8000 سال قدیم ہے۔ اس رائے کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ وادی سندھ کی زبان بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی وادی سندھ اور اس کی تہذیب قدیم ہے، مگر آج تک یہ زبان معدومی کا شکار ہے۔
دنیا بھر کے ماہرین نے وادی سندھ کی زبان پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے مگر اب تک انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ وادی سندھ کی زبان اور اس کی تحریریں کثیر تعداد میں ہڑپہ اور موہن جو دڑو سے دریافت ہوئیں۔ یہ تحریریں 1922ء سے لے کر آج تک معدومی کے عالم میں ہیں۔1- ماہرین کا کہنا ہے کہ سنسکرت میں کہے گئے رگ وید میں ادھار کے طور پر لیے گئے دوسری زبان کے الفاظ ہیں۔ رگ وید میں ادھار کے طور پر ان الفاظ کا تعلق بلکل سندھی زبان سے ہے۔ ان میں سے ایک دو الفاظ کی مثال شامل کرتا ہوں۔ ایک لفظ ہے ‘کری’ جس کا اردو میں مطلب ہے پرہیز۔ دوسرا ‘کرڑ’ جو ایک درخت کا نام ہے۔ تیسرا ‘ڈنڈو’ جسے اردو میں ڈنڈا کہتے ہیں جو لکڑی کا ہوتا ہے۔ لفظ کانو مطلب ایک آنکھ سے اندھا۔ ایسے کئی الفاظ ہیں جو اب بھی سندھی میں رائج ہیں۔ یہ ادھار لیے گئے الفاظ تین باتیں ثابت کرتے ہیں۔
ایک یہ کہ سندھی زبان سنسکرت سے جداگانہ حیثیت میں ویدک دور میں موجود تھی، دوسری یہ کہ سندھی کا تعلق وادی سندھ کی زبان سے ہوگا جس کی جڑیں آریون نے کاٹ اور اکھاڑ لیں، اور تیسری بات یہ کہ اس حوالے سے سندھی انڈو آرین نہیں بلکہ دراوڑ زبان ہے جو ویدک دور میں مکمل زبان تھی جس سے سنسکرت نے الفاظ ادھار لیے۔ البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سنسکرت اور سندھی زبان نے ایک دوسرے کا اثر لیا اور دونوں نے متوازی طور پر ارتقا کا سفر طے کیا۔ یہ خیال بھی رد ہوتا ہے کہ سندھی زبان سنسکرت میں سے نکلی ہے۔ جس زبان سے الفاظ ادھار لیے گئے ہوں وہ یقیناً الگ اور مکمل زبان ہوگی۔2- میں نے تحصیل جوہی ضلع دادو سندھ کی حدود میں کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں پہاڑوں ہر نقش کیا گیا انڈس اسکرپٹ دریافت کیا ہے، جس پر میری انگریزی میں کتاب ‘انڈس اسکرپٹ ان اسٹونز’ شایع ہوئی ہے۔ جہاں سے مجھے انڈس اسکرپٹ کی نقش و نگار ملے ہیں، وہ علاقہ موئن جو دڑو سے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ انڈس اسکرپٹ کے علاوہ یہاں اندازاً 700 عیسوی میں نقش کی گئی سنسکرت کی تحریریں پالی براہمی اور خروشتی اسکرپٹ بھی ملے ہیں۔ حاصل مطلب یہ کہ موئن جو دڑو سے باہر سندھ میں انڈس سکرپٹ کا ملنا ثابت کرتا ہے کہ وادی سندھ کے شہروں کا اس کے گاؤں اور پیاڑی علاقوں سے رابطہ تھا اور اس کی زبان بھی وہیں موجود تھی۔
ویدک دور میں سندھی زبان کا موجود ہونا اور یہاں سندھ کے پہاڑوں میں پتھروں پر انڈس اسکرپٹ ملنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وادی سندھ کی معدوم زبان کا تعلق سندھی زبان سے ہوگا۔ اگر انڈس اسکرپٹ پڑھا اور سمجھا گیا تو وادی سندھ کی زبان معدومی سے نکل آئےگی اور دوسری طرف سندھی زبان جو اب انڈو آرین زبان کے گروہ میں شامل ہے وہ بھی اس معدومی سے نکل کر دراوڑی زبان میں شامل کی جائےگی۔