درپن کو مداحوں سے بچھڑے 41 برس بیت گئے
محمد راحیل وارثی
پاکستان کی فلم انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں بہت سے ابتدائی اداکاروں کا بھرپور کردار رہا ہے۔ انہی میں سے ایک سنتوش کمار تھے، سنتوش اور صبیحہ کی جوڑی کو ناظرین آج بھی فراموش نہیں کرسکے ہیں۔ سنتوش کمار کے چھوٹے بھائی درپن نے بھی کافی سال تک انڈسٹری میں اپنی خدمات انجام دیں۔ آپ ایک متوسط گھرانے میں 1928 میں پیدا ہوئے۔ درپن کا اصل نام سید عشرت عباس تھا، لیکن فلمی نام درپن سے معروف ہوئے۔ آپ کے ایک بھائی ایس سلیمان کا شمار پاکستان کے معروف ہدایت کاروں میں ہوتا تھا۔
1950 میں آنے والی فلم ”امانت“ کے ذریعے درپن کو فلم انڈسٹری میں متعارف کرایا گیا۔ 1951 میں پنجابی زبان میں بننے والی فلم ”بلو“ آئی۔ اس کے بعد کچھ اور فلمیں آئیں اور کامیاب نہ ہوسکیں تو آپ نے بولی وُڈ میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا، وہاں آپ نے دو فلموں ”عدلِ جہانگیری“ اور ”باراتی“ میں ثانوی نوعیت کے کردار ادا کیے، پھر کچھ سال بعد واپس پاکستان آگئے۔ اُس وقت یہاں کی فلمی صنعت ترقی کے زینے تیزی سے طے کررہی تھی۔ آپ نے ”باپ کا گناہ“ (1957) میں اہم کردار ادا کیا، جسے سراہا گیا۔ پھر آپ نے مڑ کر نہیں دیکھا اور پے درپے ساتھی، رات کے راہی، سہیلی، گلفام، قیدی، آنچل، باجی، شکوہ، اک تیرا سہارا اور نائلہ جیسی کامیاب فلمیں انڈسٹری کو دیں۔ خصوصاً ”سہیلی“ نے تو سب ہی کو پیچھے چھوڑ دیا، اس فلم میں آپ کی اداکاری کو بے حد سراہا گیا، اس میں آپ کے مدمقابل نیّر سلطانہ اور شمیم آرا نے اداکاری کے جوہر دِکھائے۔
”سہیلی“ میں عمدہ اداکاری پر آپ کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی بطور ہیرو آخری بڑی فلم ”پائل کی جھنکار“ (1966) تھی۔ آپ بلوری آنکھوں اور دراز قامت کے باعث خاصی وجیہہ شخصیت کے مالک تھے۔ معروف اداکارہ نیّر سلطانہ سے آپ کی شادی ہوئی۔ آپ نے کُل 67 فلموں میں اداکاری کی، جن میں اردو زبان کی 57 اور پنجابی کی 8 فلمیں تھیں۔ 8 نومبر 1980 کو محض 52 برس کی عمر میں لاہور میں آپ کا انتقال ہوا۔