دوران کھیل پابندیوں سے بچوں کی دماغی صحت متاثر ہونے کا اندیشہ
فلوریڈا: امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اب ضروری ہے کہ بچوں پر غیر ضروری پابندیاں عائد نہ کی جائیں بلکہ انہیں آزادانہ طور پر کھیلنے اور کام کرنے کی اجازت ضرور دیجیے۔
جرنل آف پیڈیاٹرکس میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی والدین بچوں کو ہمہ وقت اپنی نظروں کے سامنے رکھتے ہیں اور ان پر طرح طرح کی قدغنیں لگاتے ہیں۔ اگر یہ عمل سخت اور دیرینہ ہو تو وہ نوعمر(ٹین) بچوں میں ڈپریشن، پریشانی (اینزائٹی)اور یہاں تک کہ خودکشی کے خیالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں، تاہم ان میں غیر معمولی یاسیت تو ضرور نوٹ کی گئی ہے۔
اگرچہ والدین کا بچوں پر توجہ رکھنا ضروری ہے، کیونکہ وہ اپنے بچوں کو منفی عادات اور خطرات سے بچانا چاہتے ہیں، لیکن بے جا روک ٹوک اور ان دیکھی زنجیر سے بچوں کو ہروقت کھٹکا لگا رہتا ہے اور وہ کھیلنے کودنے، آزادانہ طور پر خود اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے اور زندگی کے تجربات خود حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
فلوریڈا اٹلانٹک یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ڈیوڈ ایف ہورک لیونڈ اور ان کے ساتھیوں نے غور کیا ہے کہ والدین کی جانب سے بچوں کو ایسی آزادانہ سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جن میں کچھ نہ کچھ خطرہ ہوتا ہے۔ اس سے بچے اپنی مرضی کا کھیل یا سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے۔ بالخصوص امریکا میں اس کا رحجان بڑھا ہے اور بچوں میں خوداعتمادی اور حوصلہ کم ہوتا ہے۔
والدین اس کیفیت کا احساس نہیں کرسکتے، بچے دھیرے دھیرے ڈپریشن اور پریشانی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ پھر اس سے خود بچے اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ خاندان اور اپنے گھر میں مثبت کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔
پھر بچوں پر اسکول جانے، ٹیوشن اور ہوم ورک وغیرہ کا بھی بوجھ ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات نے بھی کہا کہ بچے اپنے کھیل خود بناتے ہیں اور ان کے اصول خود وضع کرتے ہیں۔ اس طرح وہ سیکھتے ہیں اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔