چاند باولی راجستھان، صنعتی انقلاب سے پانچ سو برس پہلے کا انقلاب
باولی پتا ہے کسے کہتے ہیں؟؟ راجستھان صحرا ہے جہاں پانی کی قلت رہتی ہے، پانی کو اسٹور کرنے کے لیے اس قسم کی باولیاں لگ بھگ ایک ہزار سال قبل بھارت میں بننا شروع ہوئیں۔
اس کی گہرائی لگ بھگ بیس میٹر ہے یعنی ساٹھ فیٹ ، سمجھ لیں کم از کم چھ منزلہ عمارت کے برابر گہری۔
عموما یہ بڑے مندروں کے پاس بنائی جاتی تھیں۔ یہ نہ صرف برسات کا پانی اسٹور کرلیتی تھیں بلکہ اس خاص اسٹرکچر کے سبب زمین میں اتنی مقدار میں پانی جزب ہوجاتا تھا کہ سوکھے کے زمانے میں بھی باولی کی تہہ میں بنا کنواں خشک نہیں ہوتا تھا۔
اب ذرا اس تصویر کوغور سے دیکھیں۔
آپ کے خیال میں کتنے علوم اس کی تعمیر میں استعمال ہوئے ہوں گے۔
میتھ، جیومیٹری، آرکیٹیکچر، جیولوجی ماحولیات اور ایروڈائنامکس تو لازمی استعمال ہوئے ہیں، باقی کااضافہ کوئی تعمیرات کا ماہر کرسکتا ہے۔
اب ذرا ہزار سال پیچھے جائیں، اور اس دور کا یورپی فن تعمیر ڈھونڈیں، امریکا بھائی کے تو دریافت ہونے میں ہی ابھی چارسو سال باقی ہیں۔ مجھے یوکے میں اتنی قدیم کوئی عمارت ابھی تک نظر نہیں آئی جبکہ کراچی سے لے کر خلیج بنگال تک نجانے کتنے ایسے آثار ہیں جو اس خطے کی مہارت کو ظاہر کرتے ہیں۔
صنعتی انقلاب سے پہلے یورپ میں میگا اسٹرکچرز کا کوئی خاص تصور نہیں تھا، یورپ کا تمام تر قابل ذکر تعمیری ورثہ صنعتی انقلاب کے بات کا ہے۔
اس کے بعد انہی برٹش نے بندوق کی نوک پر ہمیں آکر بتایا کہ ہم جاہل تھے اور ہم بھی اتنے جاہل تھے کہ یہ بات مان گئے اور آج تک اس پر یقین رکھتے ہوئے فخر سے شیئر کرتے ہیں کہ جب آکسفورڈ یونی ورسٹی بن رہی تھی تب یہاں تاج محل بن رہا تھا۔
اس پر میں ایک پوسٹ پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ تاج محل کے لیے جس قدر علم اور قابلیت کی ضرورت تھی وہ ابھی آکسفورڈ بننے کے دو سو سال بعد پڑھایا جانا تھا۔
عقل مند قومیں اپنے ماضی سے جڑ کر مستقبل کی تعمیر کرتی ہیں، آپ بھی اپنے ماضی سے جڑیں اور مستقبل کی تیاری کریں، ابھی بھی کوئی دیر نہیں ہوئی۔