بھارت 127مسلمانوں کے 19 برس لوٹائے!

محمد راحیل وارثی

پاکستان کی فلمی صنعت کے لیے اداکار محمد علی مرحوم کی بے پناہ خدمات ہیں، انہوں نے کئی فلموں میں اپنی اداکاری کے اعلیٰ نقوش چھوڑے، جو آج بھی لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوسکے ہیں۔ شان دار اداکاری پر انہیں شہنشاہِ جذبات کا خطاب عطا کیا گیا تھا۔ اُن کی فلم ”انسان اور آدمی“ کا ایک منظر خاصا مقبول ہے، جس میں وہ جج سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں، ”جج صاحب، مجھے میری زندگی کے 25 سال لوٹا دو، جو میں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے ہیں۔ جوانی کے وہ حسین لمحے لوٹا دو، جو میں نے جیل میں گھٹ گھٹ کے گزارے ہیں۔“ آج یہ سین اس لیے شدّت سے یاد آرہا ہے کہ نام نہاد سیکولر اور دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار بھارت میں سو سے زائد مسلمان ایسے جرم میں 19 برس تک قید رکھے گئے، جو اُنہوں نے کیا ہی نہیں تھا اور حال ہی میں اُن کی رہائی عمل میں آئی۔
اس ضمن میں سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق ان مسلمانوں کو ریاست گجرات میں مسلم تعلیم سے متعلق ایک سیمینار میں شرکت کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس نے گرفتار شدگان پر کالعدم جماعت ”اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ انڈیا“ سے تعلق رکھنے اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے لیے اسلحہ و بارود جمع کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ سیمینار کا انعقاد آل انڈیا اقلیتی تعلیمی بورڈ نے کیا تھا، جس میں جودھپور کی جے نارائن ویاس یونیورسٹی میں اُس وقت کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی رُکن تھے۔ 3 روزہ پروگرام میں بھارت بھر سے 400 مسلم اسکالرز، کارکنوں اور کمیونٹی رہنماؤں کی شرکت کی توقع تھی۔ گجرات کے شہر سورت کے بند فلم تھیٹر راجشری ہال میں جاری سیمینار کے پہلے ہی دن صبح 11بجے پولیس نے چھاپہ مارا اور 127 افراد کو حراست میں لے لیا تھا، تاہم پولیس 19 برس میں کوئی ایک بھی ثبوت یا گواہ عدالت میں پیش نہ کرسکی۔
127 بے گناہ مسلمانوں کو جھوٹے مقدمات میں پابندِ سلاسل رکھ کر اُن کی زندگی کے قیمتی 19 برس یوں ضائع کردینے کی نظیر دُنیا کے مہذب معاشروں میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی، یہ مسلمان بھارتی نظام انصاف سے اپنی جوانی کے 19 برس واپس مانگنے میں حق بجانب گردانے جائیں گے۔ بھارتی سماج کسی طور مہذب نہیں گردانا جاسکتا، بلکہ وہ قصابی معاشرہ ہے جہاں ہندو انتہا پسند قصاب بنے دیگر اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کا ڈھٹائی کے ساتھ ناصرف استحصال کرتے بلکہ سفّاکی اور درندگی کی نظیریں بھی قائم کرتے ہیں۔ اس پر حکومت بھی اُن کی پشت پناہی کرتی ہے جب کہ بھارت کا قانون بھی اُنہیں ہر طرح سے تحفظ دیتا ہے۔ اس حوالے سے ڈھیروں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
ساری دُنیا جان چکی کہ بھارت میں صرف ہندو اکثریت کو ہی تمام تر حقوق حاصل ہیں جب کہ وہاں موجود اقلیتیں ہر سُو ظلم و جبر کا شکار نظر آتی ہیں۔ اقلیتیں اپنے مصائب و مشکلات پر ماتم کناں دِکھائی دیتی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کو ہی دیکھا جائے جہاں 73 برس سے بھارت کی قابض فوج ظلم و درندگی کی نظیریں قائم کررہی ہے۔ درندہ صفت بھارتی فوج سوا لاکھ کشمیریوں کو شہید کرچکی ہے، کشمیری مسلمانوں کو جدوجہد آزادی سے باز رکھنے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا گیا، تاہم بھارت کو ہمیشہ ناکامی و نامُرادی کا منہ دیکھنا پڑا۔ وہاں آج بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کو آزادی کے ساتھ جینے کا حق نہیں۔ اُن کے تمام حقوق سلب کیے جاچکے ہیں۔ اُنہیں زبردستی اپنے زیر تسلط رکھنے کی روش پر بھارت عمل پیرا ہے۔
آخر حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور ادارے کہاں سورہے ہیں، وہ ان مظالم پر بھارت کے خلاف سخت اقدامات کیوں نہیں کرتے؟ کیا امر مانع ہے؟ یہ سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ مہذب ممالک اور ادارے خواب غفلت سے بیدار ہوں اور بھارت سے 127 بے گناہ مسلمانوں کے قیمتی 19 برسوں کا حساب لیں، اقلیتوں کے ساتھ ہندوؤں کے مظالم پر باز پرس کی جائے اور مظلوموں کو اُن کے حقوق فراہم کیے جائیں، ہندو انتہاپسندوں کو لگام دی جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا سلسلہ بند کرایا جائے اور وہاں کی مسلم اکثریت کو جینے اور فیصلہ کرنے کا حق دینے میں کردار ادا کیا جائے۔ اقوام متحدہ میں منظور شدہ قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کرایا جائے۔ خود کو مہذب قرار دینے والے ممالک اور ادارے اگر ایسا نہ کرسکے تو یہ امر ظالم کی معاونت اور پشت پناہی کے زمرے میں آئے گا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔