علامہ اقبال، مسئلہ فلسطین اور یہودیت

ڈاکٹر عمیر ہارون

آج ہمارے بعض دانشور اسرائیل کی حمایت میں تمام حدیں عبور کیے ہوئے ہیں، مظلوم فلسطینیوں کے مصائب و آلام کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ضمن میں دُور کی کوڑیاں لانے اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ جب کہ حکومت پاکستان اس حوالے سے اپنا دوٹوک موقف ایک سے زائد بار پیش کرچکی ہے۔ شاید یہ نام نہاد دانشور اسرائیل کی جانب سے مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر کئی عشروں سے ڈھائے جانے والے مظالم فراموش کر چکے ہیں، وہ جانے کس ایجنڈے کے تحت اس قسم کی باتیں اپنی تحریروں اور تبصروں میں متواتر کررہے ہیں، حالانکہ اسرائیلی افواج نے ظلم، جارحیت، درندگی، سفّاکیت کی وہ وہ بدترین نظیریں قائم کی ہیں جو معلوم تاریخ انسانی میں ڈھونڈے سے بھی دکھائی نہیں دیتیں۔ اُن کے ظلم سے بچے محفوظ رہے نہ خواتین۔ جنگی اُصول کی بدترین خلاف ورزی اسپتالوں پر بم باری کی صورت اسرائیلی افواج بارہا کرچکی ہے۔ لاکھوں فلسطینی مسلمان جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ بستیاں کی بستیاں اُجاڑ دی گئیں۔ شہر کے شہر تباہ کردیے گئے۔ اب آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے سرزمین فلسطین پر یہودیوں کی آبادکاری زورشور سے جاری ہے۔

ایسے نام نہاد دانشوروں کی سمت درست کرنے میں علامہ اقبال کے نظریات معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ دُوراندیش شخصیت تھے۔ اُن کے خیالات، افکار ہر لحاظ سے قابل تقلید اور ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں پر اُن کے بیش بہا احسانات ہیں۔ اپنے کلام کے ذریعے اُنہوں نے مسلمانوں کو اُن کے حقوق سے روشناس کرایا۔ اُن میں آزادی کی شمع کو روشن کیا۔ تصور پاکستان دیا، جس کو بھرپور جدوجہد اور تحریک کے بعد حضرت قائداعظمؒ کی قیادت میں عملی جامہ پہنایا گیا۔ علامہ کی نگاہیں محض برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل و مشکلات تک محدود نہ تھیں بلکہ وہ ساری دُنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے مسائل، حالات اور مشکلات سے بہ خوبی آگاہ تھے۔ یہودیوں اور مسئلہ فلسطین کے متعلق اُن کی سوچ بڑی واضح تھی۔ اپنی شاعری کے ذریعے اور مختلف مواقع پر اپنی گفتگو میں اس حوالے سے اُنہوں نے اپنے خیالات کا واضح اظہار کیا ہے۔ مسئلہ فلسطین پر مختلف اکابرین نے علامہ کے نظریات کو اپنی تحریروں کا حصہ بنایا ہے، جن سے اقتباس ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔

٭”مسلمانان عالم کو چاہیے کہ پوری بلند آہنگی کے ساتھ اعلان کریں کہ برطانیہ کے مدبر جس عقدے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کا تعلق صرف فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پورے عالم اسلام کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔“
٭”یہودیوں کو فلسطین سے زبردستی نہیں نکالا گیا تھا، بلکہ جیسا کہ پروفیسر ہاگنگزی کی رائے ہے، وہ اپنی خوشی سے دوسرے ممالک میں چلے گئے تھے اور ان کے صحف کا بیشتر حصہ بھی فلسطین سے باہر ہی قلم بند کیا گیا تھا۔“

٭”میری نگاہ میں فلسطین کا مسئلہ سراسر اور کلیتاً مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔“
٭”فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی تجویز تو محض ایک بہانہ ہے اصلیت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس مقدس اور مذہبی سرزمین پر اپنا مستقل انتداب قائم رکھ کر برطانوی شہنشاہیت خود اپنے لیے ایک نیا ٹھکانہ پیدا کر رہی ہے، یہ اقدام ایک خطرناک تجربہ ہے اور برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے بھی اس کو خطرناک تجربے ہی سے تعبیر کیا ہے۔“
٭”یہودیوں کو زرخیز اراضی کی پیش کش کر کے اور عربوں کو پتھریلی بنجر زمین کے ساتھ کچھ نقد رقم دے کر راضی کرنے کی کوشش قطعاً کسی سیاسی ہوش مندی کا ثبوت نہیں، یہ تو ایک ادنیٰ درجے کی حقیر سودے بازی ہے، جو یقینا اس عظیم الشان قوم کے لیے موجب ننگ اور باعثِ شرم ہے، جس کے نام پر عربوں سے آزادی کا وعدہ کیا گیا تھا۔“
(نوٹ: علامہ اقبال کا تاریخی بیان، جس کا ترجمہ 26 جولائی 1937ء کو لاہور کے موچی دروازہ کے مسلم لیگ کے تاریخی جلسہ عام میں پڑھا گیا۔)
مسئلہ فلسطین پر علامہ اقبالؔ نے جو بیان دیا تھا، وہ اقبال ؔنامہ میں موجود ہے، وہ لکھتے ہیں:
”فلسطین میں یہود کے لیے ایک قومی وطن کا قیام تو محض ایک حیلہ ہے، حقیقت یہ کہ برطانوی اِمپیریلزم مسلمانوں کے مقامات ِمقدس میں مستقل انتداب اور سیادت کی شکل میں ایک مقام کی متلاشی ہے۔“
اسرائیل کے جنگی جرائم کی فہرست طویل ہے۔ فلسطین کا زخم دل کا داغ اور سینہ کا چراغ بن چکا ہے۔ علامہ اقبالؔاس مسئلے کی جڑ سے واقف تھے۔ انھوں نے فلسطین کے عربوں سے مخاطب ہوکر ایک نظم کہی تھی:

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
مَیں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے

یہ ہے اقبالؔ کے نزدیک مسئلہ فلسطین کا حل۔ فلسطین کا مسئلہ جنیوا میں حل ہوسکتا ہے اور نہ لندن میں اور نہ تل ابیب میں۔ چنانچہ علامہ اقبال کہتے ہیں:

ہے خاکِ فلسطین پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اَہلِ عرب کا
مقصد ہے ملوکیتِ افرنگ کا کچھ اور
قصہ نہیں تاریخ کایا شہد ورطب کا

اسی طرح نظم ”تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار“ میں جو نطشے کے زیر ِاثر لکھی گئی ہے، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام میں یہودی مہاجن بہت زیادہ طاقتور ہیں اور اس معاشی قوت کی وجہ سے سیاسی معاملات کی باگ ڈور بھی اُن کے ہاتھ میں آگئی ہے۔
علامہ اقبال نوآبادیاتی نفسیات اور سامراج کی چالوں سے خوب آگاہ تھے۔ اقبال اپنے ایک خط میں قائداعظمؒ کو لکھتے ہیں: ”میں فلسطین کے مسئلے کے لیے جیل جانے کو تیار ہوں، اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ اسلام کے لیے بہت عظیم ہے… یہ ایشیا کا دروازہ ہے، جس پر بُری نیت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔“
پروفیسر فتح محمد ملک کے مطابق:”اپنی زندگی کے آخری ایام میں اقبال کو تقسیمِ فلسطین کے تصور نے مسلسل بے چین رکھا۔ اقبال نے اس وقت ہی سے فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کردی تھیں، جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبال نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز سے کام لیا، مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامہ کی بیداری اور کُل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا۔“
علامہ اقبال 30 جولائی 1937ء کو فارکو ہرسن کے نام اپنے خط میں فلسطینی عوام کی وکالت کرتے ہوئے لکھا:”عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے، میں اس کو اسی شدت سے محسوس کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرنے پایا۔ انگریز قوم کو بیدار کرکے اس بات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرے جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں کے ساتھ کیے ہیں۔“
ضرب کلیم ہی میں شامل ایک نظم ”شام و فلسطین“ میں وہ کہتے ہیں کہ اگر اس دعوے کو تسلیم کرلیا جائے کہ فلسطین پر یہودیوں کا حق اس لیے ہے کہ وہ کبھی یہاں قابض تھے تو پھر ہسپانیہ پہ مسلمانوں کا حق کیوں نہیں تسلیم کیا جاتا، جنہوں نے سات صدیوں تک یہاں حکومت کی۔ ان اشعار میں منطقی انداز سے یہودیوں کے دعوے کی نفی کی گئی ہے:

رِندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت
پُر ہے مئے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلَب کا
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَرب کا

علامہ اقبال کے نظریات اس حوالے سے واضح راہیں متعین کرتے ہیں۔ فلسطین کے مسلمانوں پر مظالم کے خاتمے اور قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی تک اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہیں جاسکتا۔ اس حوالے سے پروپیگنڈے اب بند ہونے چاہئیں، نام نہاد دانشوروں کو اپنی دُکانیں چمکانے کے لیے کوئی اور راستے تلاش کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: اس مضمون کے لیے کلیات اقبال، ”اقبال کے آخری دو سال“از: عاشق حسین بٹالوی، ”لالہ ئخونیں کفن، فلسطین اُردو شاعری میں“مضمون نگار: پروفیسر محسن عثمانی ندوی سے مدد لی گئی ہے

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔